مغرب کے خفیہ جھوٹ اور منافقت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 حالیہ جغرافیائی سیاسی تاریخ دنیا کی طاقتور قوموں کی سخت جھوٹی داستانوں سے بھرپور ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہی اصول مانا جاتا ہے۔ عام طور پر اس قسم کے جھوٹ  جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک مفادات کیلئے چھپائے جاتے تھے۔

مغرب چھوٹی اور کمزور قوموں کے بھی خلاف رہا ہے۔ ریاستوں کے ضرورت مند یا لالچی سربراہان مغرب کیلئے آسان ہدف ثابت ہوئے۔ طاقتور اقوام، خصوصاً امریکا اور نیٹو کی ملی بھگت نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے ہمیشہ حد سے تجاوز کو حکمتِ عملی بنایا۔

ماضی مین میری یادیں جہادِ افغانستان کے نعروں اور نظموں کی وبا سے شروع ہوتی ہیں۔ راقم الحروف کی نوجوانی میں پاکستان کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدر جنرل ضیاء الحق کی مثال ہمارے سامنے ہے جو سووویت یونین روس کی تباہی میں پیش پیش رہے۔ پراکسی جنگ کے نتیجے میں امریکا دنیا کا تھانے دار بن کر بیٹھ گیا۔

بعد ازاں افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف جہاد کے نام پر دنیا کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مسلم دنیا کے امیر ترین افراد روس کو شکست دینے کیلئے امریکا اور نیٹو یورپی اتحاد کا ساتھ دینے لگے۔ نیٹو بیانیے کو تقویت دینے کیلئے سیکڑوں نعرے تخلیق ہوئے اور پھیلائے گئے۔ پاکستان کے مذہبی، سیاسی اور وردی پوش رہنماؤں نے خطے کے بد ترین واقعات کیلئے عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا۔

بطاہر نائن الیون انسانیت کے خلاف ایک گھناؤنا جرم سہی، تحقیقاتی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ 2001 میں نائن الیون کا یہ واقعہ بھی اسٹیج ڈرامہ تھا۔ حالیہ دہائیوں کے اس سب سے بڑے جھوٹ کا مقصد القاعدہ کے خلاف نفرت کو جنم دینا تھا جو مجاہدین کے بڑے دھڑے کے ساتھ امریکی نیٹو افواج سے افغانستان میں برسرِ پیکار تھی۔ 20 سال بعد افغان جہاد کے اثاثے ختم کرنے کیلئے امریکا، یورپی یونین اور نیٹو ممالک کے اربوں خرچ کیے گئے۔ جھوٹے بیانیے پر اخراجات کے نتیجے میں شدید عالمی مندی اور افغانستان کے علاوہ پاکستان میں بھی طالبان پہنچ گئے۔

طالبان نے ستمبر 2021 میں جنگ زدہ افغانستان سے انخلاء کے بعد پورے افغانستان اور امریکی نیٹو افواج کے تمام تر مہلک ہتھیاروں پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ اقدام تھا جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔ عراق، لیبیا اور شام کے ساتھ کیا ہوا؟ ہر جگہ جھوٹی رپورٹس اور بیانیے گھڑے گئے جسے عرب اسپرنگ کا نام دے دیا گیا۔ افغانستان کے علاوہ پاکستان کا بھی اربوں کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوا۔

یوکرین میں امریکا کی ریشہ دوانیاں اسی روز سے شروع ہوگئیں جب 1991 میں اس ملک نے آزادی کا اعلان کیا۔ نتیجتاً 2014 میں احترام کا انقلاب سامنے آیا جس میں یوکرین کو انسانی جانوں اور بنیادی انفرا اسٹرکچر کی تباہی کا منہ دیکھنا پڑا۔ 24 فروری 2022 کو یوکرین جنگ پر اکسایا گیا جس کی ذمہ داری ایک ملک دوسرے پر جبکہ دوسرا تیسرے پر ڈال دیتا ہے۔ دونوں جانب انفرا اسٹرکچر کی وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔ پاور ہاؤسز سمیت بہت اہم تنصیبات بھی تباہ و برباد ہوگئیں۔

دراصل یوکرین جنگ نے مغرب کے منافقانہ دوہرے طرزِ عمل کو بے نقاب کردیا ہے۔ روس میں شہری انفراسٹرکچر کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا تو جائز تاہم یوکرین میں اسی قسم کا نقصان جنگی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔ یوکرین کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر روسی مسلح افواج کے حملوں پر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا شدید منفی ردِ عمل اس حقیقت کے برعکس ہے کہ نیٹو نے 1999 میں سابق یوگو سلاویہ کی سرزمین پر بمباری کرتے وقت بالکل وہی حربے استعمال کیے تھے۔

امریکی محکمۂ خارجہ میں دو طرفہ امریکا روس صدارتی کمیشن کے سابق مشیر جیمز کارڈن نے ترکی کے نیوز ٹی وی چینل ٹی آر ٹی ورلڈ میں اعتراف کیا کہ امریکا نے دیگر ممالک کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر بار بار حملے کیے۔ یوکرین اور مغربی اتحادیوں کو حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ روس فوجی کارروائی کے دوران موسمِ سرما کا عنصر استعمال کر رہا ہے، کیونکہ ہم نے اسی طرح سربیا کے خلاف آپریشن کیا تھا اور 2003 میں عراق کے خلاف مہم چلائی۔

جیمز کارڈن نے کہا کہ یوکرین معاملے کے برعکس سربیا کوئی دہشت گرد ریاست نہیں تھا۔ اس نے جوہری پاور پلانٹس پر کوئی گولہ باری نہیں کی۔ نہ تو پل اڑائے، نہ ہی شہریوں پر بم برسائے گئے۔ بلغراد صرف روس سے تاریخی قربت کے باعث نیٹو کی جارحیت کا نشانہ بن گیا۔ اس اتحاد نے بلقان میں روس کو اپنے اہم اتحادی سے محروم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ امریکا اور نیٹو کے برعکس روسی فوج یوکرین کے شہریوں کے ساتھ اپنے انسانی روئیے سے ممتاز ہوئی۔ نیٹو نے یوگو سلاویہ میں تباہی پر مبنی جنگ کے حربے استعمال کیے۔

اسی طرح جیمز کارٹن کے جرات مندانہ بیانات روس یوکرین تنازعے کے حوالے سے مغرب کی اجتماعی متضاد اور منافقانہ پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ مغرب کے ذاتی مفادات اور چھپے ہوئے بیانیے کو حقیقتاً چھپا لینا یقیناً ناممکن ہے بلکہ بہت سے اندر کے لوگوں کا ضمیر ابھی تک جاگ رہا ہے جبکہ فعال اور متحرک میڈیا پوری دنیا میں اپنے خیالات پہنچانے کیلئے سرگرم ہے۔

Related Posts