ملک میں چینی کی قیمتوں کا احوال

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں چینی ایک ضروری شے سمجھی جاتی ہے، ایک ایسا ملک جہاں چائے ایک غیر متزلزل جذبے کے ساتھ پی جاتی ہے، چینی میٹھے کلچر کا ایک لازمی حصہ ہے،تاہم، حالیہ برسوں میں چینی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نے صارفین اورچینی بیچنے والوں دونوں کو معاشی غیر یقینی صورتحال کی ایک رولر کوسٹر سواری پر چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں چینی نے اپنی ڈبل سنچری مکمل کر لی ہے اور کوئٹہ میں چینی کی قیمت 230 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔

ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کرنے والے عوام جہاں خوردنی اشیاء کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، ایندھن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور باقی ماندہ خلا بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پُر ہو رہا ہے، وہ اب مہنگے داموں چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔ دنیا میں گنے کی پیداوار کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ملک میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو دیکھ کر کوئی بھی آسانی سے چونک سکتا ہے۔

نگران وزیراعظم نے چینی اور دیگر اشیاء کی افغانستان اسمگلنگ کی اطلاعات پر کارروائی کا حکم دیا ہے۔ اس کے باوجود حالات عوام کے قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ دریں اثنا، ملک بھر میں ریفائنڈ چینی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے درمیان، سابق حکومت کے دو بڑے اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ ملک میں موجودہ بحرانوں کی بنیادی وجہ غیر یقینی صورتحال ہے جو کہ مفاد پرستوں نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے پیدا کی ہے۔سابق وزیر منصوبہ بندی نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر تجارت نوید قمر گزشتہ مہینوں میں چینی کی برآمد سے متعلق کسی بھی سوال کا بہتر طور پر جواب دے سکتے ہیں اور قوم کو یہ بتانے کے لیے بھی بہتر پوزیشن میں ہوں گے کہ چینی کے لیے کتنا ذخیرہ موجود ہے، کیونکہ ان کی وزارت کے دوران چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔

دوسری جانب احسن اقبال کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے پی پی پی سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ مخلوط حکومت میں پی پی پی کے پاس وزارت تجارت تھی لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اقتصادی پالیسیوں سے متعلق اہم فیصلے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے حکام لے جا رہے تھے۔

ملک کی دونوں بڑی جماعتوں نے ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دی ہے۔ کسی کو صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے جبکہ نگران حکومت چینی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے سخت ایکشن لے۔

Related Posts