مقصدِ اصلی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

"مقصدِ اصلی"
"مقصدِ اصلی"

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ بات سیاسی گلیاروں میں زبان زد عام ہے کہ پی ٹی آئی کے فاشسٹ لیڈر عمران خان کو منع کیا گیا تھا کہ لانگ مارچ کا اعلان مت کیجئے۔ خود عمران خان بھی ایک انٹرویو میں یہ کہہ چکے کہ مجھ سے کئے گئے وعدے توڑے گئے۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان سے وعدے کس نے کئے تھے اور وہ وعدے تھے کیا ؟ مگر ان کی اس بات کو اگر سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کے اس بیان کے تناظر میں دیکھا جائے جس میں کہا گیا تھا “عمران خان کے اب بھی اسٹیبلیشمنٹ سے رابطے ہیں” تو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ وعدے کس نے کئے ہوں گے اور یہ وعدے ممکنہ طور پر کیا رہے ہوں گے۔

بعض سینئر تجزیہ کار تو صاف کہتے ہیں کہ شیخ رشید 48 گھنٹوں والے شوشے اسی لئے چھوڑ رہے تھے کہ عمران خان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں نئے انتخابات کا اعلان ہو جائے گا۔ مگر یہ سب نہایت قرین قیاس ہونے کے باوجود ہے پھر بھی محض “قیاس”۔ مگر اس پورے قیاس میں ایک چیز ایسی ہے جس کا ایک حصہ سب نے سنا اور دیکھا جبکہ دوسرا حصہ اس سنے اور دیکھے کے نتیجے کے طور پر سامنے آچکا۔

عمران خان کی پریس کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی کو ایک کال آئی تھی۔ یہ کال سن کر شاہ محمود قریشی نے عمران خان کے کان میں جو سرگوشی کی وہ سب نے سنی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا “وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹریپ کر دینگے” اس پر عمران خان نے جواب دیا “کردیں” دو دن تک تو تجزیہ کار یہ نتیجہ اخذ کرتے رہے کہ یہ کال ایک دھمکی تھی۔

لیکن 25 مئی کو لانگ مارچ والے دن جو کچھ ہوا اس نے واضح کردیا ہے کہ وہ کال دھمکی نہیں “مخبری” تھی۔ عمران خان نے اس مخبری کو رعونت سے ٹھکرا تو دیا مگر 25 مئی کو پوری قوم نے انہیں ٹریپ ہوتے دیکھا۔ وہ اس روز اپنے جال میں خود پھنس چکے تھے۔ اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب کریں تو کیا کریں ؟ اس ٹریپ کا ہی نتیجہ تھا کہ 25 مئی کی صبح ہی عمران خان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ ٹریپ ہوچکے۔

اس ٹریپ سے نکلنے کے لئے انہوں نے کیا کیا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی 25 مئی کو دن ایک بجے کے لگ بھگ ایک نیوز چینل نے خبر بریک کی کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین معاہدہ طے پاگیا ہے۔ اس معاہدے کے لئے ہونے والے “پس پردہ مذاکرات” میں پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک اور اسد عمر نے حصہ لیا۔ اور معاہدے میں طے پایا ہے کہ پی ٹی آئی اسلام آباد میں کوئی دھرنا نہیں دے گی، بس جلسہ کرکے چلی جائے گی، لھذا اسے آنے دیا جائے۔

کچھ دیر میں وزیر اطلاعات مریم اورنگریزب نے ایسے کسی معاہدے کی تردید کردی۔ اور یہ بھی بتایا کہ ایسے کوئی مذاکرات نہیں ہوئے۔ لیکن اسی دن نون لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق سپیکر ایاز صادق نے انکشاف کیا کہ مذاکرات کے لئے پی ٹی آئی ٹیم آئی تھی۔ اپنا مدعا بھی بتایا تھا، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اس سے لاعلم تھیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ دھرنے کے ٹریپ میں پھنسے عمران خان اس ٹریپ سے نکلنے کی جو پس پردہ کوشش کر رہے تھے اس میں بھی محض ٹریپ ہوکر رہ گئے گویا صورتحال اب ٹریپ در ٹریپ والی تھی۔ انگریزی کا مشہور محاورہ ہے کہ ہارنے والا اپنی شرائط نہیں منوا سکتا۔ عمران خان کے ساتھ بھی اس روز یہی ہوا۔

وہ بیک ڈور سے جو سیف ایگزیٹ مانگ رہے تھے، وہ حکومت نے اس ہارے ہوئے لشکر کو دینے سے صاف انکار کردیا۔ اس صورتحال میں صوابی انٹرچینج پر صبح سے سے 20 لاکھ کے لشکر کے منتظر عمران خان اس بری طرح ٹریپ تھے کہ شام کو وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے دن بھر کی رپورٹ دیتی اپنی پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی پر طنز کے تیروں کی بارش کردی۔ یہ موقع وہ کیسے جانے دیتے ؟ ان کا 20 لاکھ کا لشکر لانے کا دعویدار حریف صوابی میں پانچ سے دس ہزار کارکنوں کے ساتھ گھنٹوں سے بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔

لاہور کے صرف بتی چوک پر ڈیڑھ دو سو بلوائی نکلے تھے، جبکہ جس کراچی کے بارے میں دعوی کیا گیا تھا کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے پر اگلی رات وہاں لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے تھے اسی کراچی کی صرف نمائش چورنگی پر مارچ والے روز محض دو سے تین سو بلوائی نظر آرہے تھے۔

ٹریپ شدہ عمران خان کو ریسکیو کرنے وہی آئے جو 2014ء سے مسلسل ان کے سہولت کار رہے ہیں۔ اس سہولت کاری کے نتیجے میں سارے راستے کھل گئے۔ صوابی میں صبح سے بے بس کھڑا قافلہ چلنا شروع ہوا۔ اور اس قافلے کے اسلام آباد میں داخل ہونے تک ان کے ہراول دستے نے اسلام آباد میں پہلے درختوں اور پھر سرکاری املاک کو آگ لگانی شروع کردی تھی۔

یوں وہ بات درست ثابت ہوتی چلی گئی جو رانا ثناء اللہ کئی روز سے کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی کا ارادہ پرامن سیاسی سرگرمی کا نہیں بلکہ فساد کا ہے۔ یہ فسادی اگر اسلام آباد میں داخل ہونے کی عوامی قدرت رکھتے تو انہیں صبح سے شام تک صوابی میں نہ کھڑا رہنا پڑتا۔ یہ فساد وہ صبح ہی عوامی طاقت سے مچا چکے ہوتے۔ مگر وہ تو بے بس تھے اور بے بس انہیں حکومت نے کر رکھا تھا۔ ان کا مچایا ہوا فساد تب ممکن ہوا جب ایک حکم کے تحت ان کی بے بسی ختم کروا دی گئی اور انہیں کھلی چھوٹ دیدی گئی۔

ٹریپ سے نکلتے ہی وہ آئے، اسلام آباد کو آگ لگائی اور چلے گئے۔ مگر یہ بلوائی کچھ بے حد اہم سوالات پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ اس مارچ کو عمران خان نے “حقیقی آزادی مارچ” کا نام دیا تھا۔ دعوی بھی یہ تھا کہ اس مارچ کے نتیجے میں “امپورٹڈ حکومت” سے حقیقی آزادی لئے بغیر چین سے نہ بیٹھا جائے گا۔ باقاعدہ دھرنا ہوگا اور تب تک ہوگا جب تک حقیقی آزادی نہ مل جائے۔ تو پھر یہ بلوائی صرف فساد مچا کر ایک ہی رات میں چلتے کیوں بنے ؟

کیا اسلام آباد کے درختوں سے آزادی مطلوب تھی کہ یہ ٹاسک پورا ہوتے ہی بلوائی چلتے بنے ؟ منع کرنے کے باوجود اچانک کئے گئے اس ایک روزہ مارچ کا مقصد اصلی پھر تھا کیا ؟ اس کا جواب کشمیری حریت پسند رہنماء یسین ملک کی اہلیہ کی اس اپیل میں موجود ہے جو انہوں نے عمران خان سے تھی کہ مارچ کی تاریخ دو دن آگے بڑھا لی جائے۔ 25 مئی کو بھارتی عدالت یسین ملک کو سزا سنانے جا رہی ہے۔

اس سے قوم کی توجہ نہ ہٹائی جائے۔ عمران خان نے نہ صرف یہ کہ اس اپیل کو عملا مسترد کیا بلکہ اب محض “یک روزہ” بلوے نے واضح بھی کردیا ہے کہ مقصد اصلی تھا بھی بس یہی۔ یہ محض الزام تراشی نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اپنی وزارت عظمی کے آخری دنوں میں عمران خان اسی بھارت کو کیسے کیسے خراج تحسین پیش کرتے رہے ہیں۔ اور اس کے بعد سے پاکستانی فوج کو ٹارگٹ کرنے کے نتیجے میں بھارتی میڈیا کس جوش و خروش کے ساتھ ان کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے۔

یہ ایک پورا پیٹرن ہے۔ اس پیٹرن کے پہلے مرحلے میں وہ بھارت کی تعریفیں کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں فوج کی قیادت کو “غدار” قرار دیتے دیکھے گئے اور تیسرے مرحلے میں یسین ملک کی سزا والے روز پوری قوم کی توجہ دلی کے بجائے صوابی اور اسلام آباد پر مرکوز رکھوائی گئی۔ اگر یہ مقصد اصلی یہ نہ تھا تو یہ یک روزہ سرگرمی تو 27 مئی کو بھی کی جاسکتی تھی۔ وہ 25 مئی پر ہی اس حد تک کیوں بضد رہے کہ یسین ملک کی مظلوم اہلیہ کی اپیل تک مسترد کردی ؟

اگر ایسا نہ تھا تو پھر پی ٹی آئی بتائے کہ وہ کیا ہدف تھا جو صرف 25 مئی کو ہی حاصل ہوسکتا تھا 27 مئی کو نہیں ؟ کیونکہ یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ “حقیقی آزادی” محض ایک ڈرامہ تھا۔ اگر یہ کوئی حقیقی مقصد ہوتا تو اس پر سمجھوتہ نہ کیا جاتا۔ آزادی کے کے قافلے تو کٹہروں اور ٹینکوں کی پروا سے بے نیاز ہوتے ہیں۔تاریخ بھری پڑی ہے کہ حریت پسندوں نے ہمیشہ ججز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ہے کہ وہ آزادی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

Related Posts