معاشی بحران کا اصل سبب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ آغاز اس کا یوں ہوا کہ جسے خندقیں کھودنے کے لئے بھرتی کیا گیا تھا وہ 2017ء میں معاشی امور سے متعلق ایک سیمینار میں گیا اور فرمایا “ملکی معیشت اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں ہے” معیشت کو اچھا کرنے کی سکیم ان کا ادارہ پہلے ہی لانچ کرچکا تھا۔

سکیم کا نام عمران خان پروجیکٹ تھا۔ اور اس سکیم میں پیش کردہ تصور کا نچوڑ یہ تھا کہ معیشت کو اچھا صرف وہی کرسکتا ہےجس نے کرکٹ ورلڈکپ جیتا ہو۔ جو اتنا ایماندار ہو کہ توشہ خانے کو نیٹ اینڈ کلین رکھ سکتا ہو اور جس کا کریکٹر اتنا “مضبوط” ہو کہ ناجائز بیٹی کا باپ ہونے کا کیس اس پر قائم ہو۔ 2018ء میں ووٹ چرا کر عمران خان کی حکومت قائم کردی گئی مگر پتہ نہیں کیا ہوا معیشت اچھی نہ ہوئی۔ نہ صرف یہ کہ اچھی نہ ہوئی بلکہ اس مقام تک پہنچ گئی جہاں جنرل باجوہ بھی اب قسمیہ کہیں گے کہ معیشت بری کیا بدتر ہو چکی ہے۔ اس سب کا سہرا کس کے سر جاتا ہے؟ جنرل باجوہ کے سر۔ وہی جنرل باجوہ جو رسوائی کے اس مقام پر جا گرے ہیں کہ ان کا کٹھ پتلی ہی انہیں روز ذلیل کرتا ہے۔

معاشی بحران نے ہر شخص کو متاثر کر رکھا ہے اور ہر شخص اس کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے سوالات پوچھ رہا ہے۔ ہم کوئی معاشی ماہر نہیں سو اس کی جملہ باریکیوں کا شعور نہیں رکھتے۔ پھر ہمارے ہاں ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ یہاں آراء بھی پارٹی وابستگی کی بنیاد پر چلتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ جو ماہرین معاشیات پی ٹی آئی کے لئے ہمدردی رکھتے ہیں ان کے حساب معیشت کے لئے آنے والے دنوں میں جو امکانات ہیں پٹواری ماہرین معیشت کے امکانات اس کے بالکل الٹ ہیں۔ یوں ہم جیسے معاشی امور سے نابلد شخص کے لئے محال ہوجاتا ہے کہ کس کی بات پر یقین کریں اور کس کی بات پر نہیں۔ اس صورتحال میں ہمارا ذہن ایک اور پہلو کی جانب گیا۔ وہ یہ کہ ہیں تو ہم کیپٹلزم کا حصہ اور کیپٹلزم ان دنوں خود اپنے گھر مغرب میں بری صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ سو کیوں نہ برائی کو اس کے گھر سے سمجھنے کی کوشش کرلی جائے؟ اس ضمن میں ہم نے جو کچھ پڑھا یا ویڈیورپورٹس کی صورت دیکھا اس کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔

معاشی امور کے وہ امریکی ماہرین جو کیپٹلزم کے نقاد ہیں، ایک تباہ کن ٹرینڈ کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں حقیقی ترقی کا دورانیہ 100 سال پر مشتمل ہے۔ اور یہ 100 سال 1878ء سے شروع ہو کر 1978ء پر ختم ہوتے ہیں۔ وہ اسے حقیقی ترقی کا عرصہ اس معنی میں بتاتے ہیں کہ ملازمت پیشہ طبقہ اپنی خدمات کا جو معاوضہ لے رہا تھا وہ ان کے کام کے لحاظ سے مناسب بھی تھا اور اس میں سالانہ اضافے سے لوگوں کی مالی حالت صرف بہتر ہی نہیں بلکہ مستحکم بھی ہوتی چلی جا رہی تھی۔ یوں ملازمت پیشہ لوگوں کا کچھ عرصے بعد اپنا کوئی کاربار شروع کرنے کا رجحان بھی بہت تیز تھا۔ غربت تیزی سے سکڑتی اور خوشحالی اسی رفتار سے پھیلتی چلی جا رہی تھی۔ کیوں؟ کیونکہ خدمات کا معاوضہ بالکل ٹھیک تھا۔ اتنا ٹھیک کہ اس میں ٹھیک ٹھاک بچت بھی ہوجاتی تھی۔

لیکن جب بیسویں صدی کی 70 کی دہائی آئی تو کیپٹلزم نے اس ملازمت پیشہ طبقے پر حملے کا آغاز کردیا۔ اس حملے کی پہل یوں ہوئی کہ مارکیٹ میں موجود اشیائے صرف کی قیمتیں سالانہ بنیاد پر بڑھنی شروع ہوگئیں۔ اور یہ قیمتیں جس حساب سے بڑھنے لگیں وہ لوگوں کے معاوضے میں سالانہ اضافے سے بہت زیادہ تھا۔ یوں دھیرے دھیرے لوگوں کی آمدن ان کی ضروریات کی تکمیل کے لئے ناکافی ہوتی چلی گئی۔ معروف اامریکی اکانومسٹ ڈاکٹر رچرڈ ولف کہتے ہیں کہ جب یہ صورتحال شروع ہوئی کیپٹلزم کے ناخداؤں نے ایک نئی بحث چھڑوا کر ایک نئے تصور کو فروغ دینا شروع کردیا۔ بحث یہ چھیڑی گئی کہ یہ کیا بات ہوئی کہ گھر میں صرف ایک بندہ کمائے گا اور باقی سب کھائیں گے؟ کنبے کے تین حصے ہوتے ہیں۔ ایک باپ، دوسری ماں اور تیسرے بچے۔ چنانچہ یہ کلچر متعارف کرایا گیا کہ باپ ہی نہیں ماں کو بھی نوکری کرنی ہوگی۔ اور واردات یہ کی گئی کہ قوم کو یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ تصور ہم اس لئے پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے آپ کو لوٹنے کا جو عمل شروع کیا ہے اس کے نتیجے میں آپ کے گھر کے اخراجات اب ایک فرد کی آمدنی سے پورے نہیں ہوسکتے۔ بلکہ اس تصور کو علم، نظریے اور روشنی کے نام پر پیش کرکے یہ کہا گیا کہ ہم تو عورت کو طاقتور اور خودمختار بنا رہے ہیں۔

ڈاکٹر رچرڈ ولف کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں طلاقوں کی شرح آسمان پر پہنچ گئی۔ اور امریکہ دنیا میں نفسیاتی ادویات استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ اور یہ ادویات استعمال بھی سب سے زیادہ خواتین کر رہی ہیں کہ کیونکہ جو بوجھ ان پر لاد دیا گیا وہ ان کی بساط سے بہت زیادہ ہے۔ شہریوں پر کیپٹلزم کا حملہ صرف اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے تک نہ رکا بلکہ ٹیکس قوانین کو مزید ایسی شکل دیدی گئی کہ جتنا سرمایہ دار بڑا ہو اتنا ہی اس پر ٹیکس کا تناسب کم ہو۔ یوں گویا ملک کے خرچے پورے کرنے کا سارا بوجھ ملازمت پیشہ لوگوں پر ڈال دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یوں سامنے آیا کہ سرمایہ دار ارب پتی بنتے چلے گئے اور ملازمت پیشہ افراد کی قسمت میں تنزل یا جمود کی صورتحال آئی ہے۔ سادہ الفاظ میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا گیا۔

بات صرف یہیں نہیں رکی بلکہ جلد ہی کریڈٹ کارڈ لانچ کردیا گیا۔ اس کارڈ نے لوگوں کی مالی حالت کو شدید خطرے سے دوچار کردیا، کیونکہ ملازمت پیشہ طبقہ اب وہ پیسے بھی پیشگی خرچ کرنے لگا جو ابھی ان کی جیب میں آئے بھی نہیں ہوتے۔ اب اگر پیسے آگئے تو آتے ہی چلے بھی گئے کیونکہ خرچ تو وہ کریڈٹ کارڈ کی مدد سے اپنی آمد سے قبل ہی ہوچکے۔ اور اگر رقم نہ آئی  اور بینک کو ادا نہ ہوسکی تو سود لگنا شروع ہوگیا۔ یوں ایک نئے خرچے کا سامنا ہوا۔ اور خرچہ بھی وہ جس کے بدلے حاصل کچھ بھی نہیں۔ کیپٹلزم یہیں نہیں رکا بلکہ اس نے لوگوں کو بینکوں کے ذریعے اپنے مکان کا مالک بنانے کی سکیم بھی لانچ کردی۔ یوں کنبے کے بڑے یعنی ماں باپ مقروض ہونے شروع ہوگئے۔ اور ایسے کیسز بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں کہ بندہ ڈیفالٹ کرگیا اور بینک نے گھر سے دھکے دے کر نکال دیا۔ مگر یہ بھی ناکافی سمجھ لیا گیا۔ چنانچہ اگلے مرحلے میں ان بچوں کو نشانہ بنایا گیا جو ابھی زیر تعلیم تھے۔ ان کے لئے بینکوں سے “تعلیمی قرضہ” کی سکیم متعارف کرادی گئی۔ نتیجہ یہ کہ پورا امریکہ معاشرہ قرضوں میں جکڑا گیا۔ ایسے میں جب کورونا وائرس کا حملہ ہوا کروڑوں امریکیوں کو اس خوف نے آگھیرا کہ کارخانے بند ہونے سے ملازمت گئی تو بینک کو گھر، گاڑی اور تعلیم کی قسط کیسے ادا کریں گے؟ قسط ادا نہ کی تو گھر ، گاڑی اور تعلیم کیسے برقرار رکھیں گے؟ کیپٹلزم کی بے رحمی کا اندازہ امریکی نیوز چینلز پر دکھائے جانے والے ان مناظر سے لگایا جا سکتا ہے جن میں ہمارے پاکستانی سیٹھوں کی گاڑیوں سے زیادہ بڑی گاڑیوں میں بیٹھے لوگ اسی طرح کی لمبی قطاریں لگائے کھڑے تھے جس طرح کی قطاریں کسی زمانے ہمارے ہاں سی این جی سٹیشنز پر لگا کرتی تھیں۔ اور یہ امریکی قطاریں خیراتی کھانا لینے والوں کی تھیں۔ قسطوں کا گھر، قسطوں کی گاڑی مگر جیب میں کھانے کے پیسے نہیں۔ کھانا خیرات کا۔

ہم نے آپ کے سامنے رکھی امریکہ کی صورتحال ہے مگر آپ ذرا سا غور کریں گے تو یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کہ ہمارے ساتھ بھی تو یہی سب ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی قیمتیں جس شرح سے بڑھتی ہیں اس شرح سے تنخواہ نہیں بڑھتی۔ ہمارے ہاں بھی صورتحال یہ ہے کہ صرف باپ کی کمائی ناکافی ہے ماں کو بھی نوکری کرنی پڑتی ہے۔ اور اسی خوش فہمی کے ساتھ کرنی پڑتی ہے کہ وہ طاقتور اور خود مختار ہو رہی ہے۔ حالانکہ بن وہ نفسیاتی مریض رہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ٹیکسوں کا سارا بوجھ عام شہری پر ہے۔ ہمارے ہاں بھی کریڈٹ کارڈ ملازمت پیشہ لوگوں کو ایڈوانس میں کنگال کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بینکوں سے قسطوں پر گاڑی اور گھر خریدنے کا رواج فروغ پا رہا ہے۔ ہمارا طالب علم بھی تعلیمی قرضے کے جال میں آتا جا رہا ہے۔ سو ہمارا اصل معاشی بحران یہ نہیں کہ ہمیں ڈیفالٹ کا خطرہ ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ ہم ایسے نظام کا حصہ ہیں جو اپنے گھر امریکہ میں بھی عام شہری کو صرف نچوڑتا ہے، اسے دیتا کچھ نہیں۔ دنیا اس نظام سے نکلنے کا سفر شروع کرچکی۔ برکس کے نام سے نیا اتحاد تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے کے حوالے سے  روز کوئی نئی خبر آرہی ہوتی ہے۔ کیونکہ روس پر لگائی گئی امریکی پابندیوں کے نتیجے میں پوری دنیا میں یہ خوف پھیل گیا ہے کہ امریکہ تو یہ بدمعاشی کسی کے ساتھ بھی کرسکتا ہے۔ اور اس سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ڈالر راج ختم کرکے کیپٹلزم سے جان چھڑائی جائے !

Related Posts