دعوتِ دین کے اصول

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اگر آپ دعوتِ دین کا جذبہ رکھتے ہیں تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ جذبہ اور کام آپ کی زندگی کو بامقصد بنا دیتا ہے۔ مگر آپ کو یہ کام درست حکمت عملی کے ساتھ کرنے کے اصول سمجھنے ہوں گے۔

 پہلی بات آپ یہ سمجھ لیجئے کہ اس کام کے دو مدارج ہیں۔ پہلا یہ کہ کوئی شخص باعمل مسلمان بن جائے۔ باعمل مسلمان اسے کہتے ہیں جس کی عملی زندگی میں مذہب کسی نہ کسی درجے میں موجود ہو۔ ہم سے جب کوئی ذاتی حیثیت میں رابطہ کرکے کہتا ہے کہ باعمل مسلمان بننے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ تو ہم کہتے ہیں بس دو کام شروع کردیجئے آپ بہترین باعمل مسلمان بن جائیں گے۔ پہلا یہ کہ فرائض کی پابندی شروع کردیجئے۔ دوسرا یہ کہ حرام سے پرہیز اختیار کر لیجئے۔ پھر حرام کی ہم انہیں یہ تفصیل بھی بیان کردیتے ہیں کہ حرام سے پرہیز صرف حرام کی کمائی سے پرہیز نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی کے خلاف سازش کرنا، کسی کے لئے گڑھا کھودنا، کسی کا حق مارنا وغیرہ بھی حرام ہی ہے۔ لہٰذا ان حرکتوں سے بھی بچنا ہوگا۔

اس ضمن میں بالخصوص نماز کے حوالے سے ہم یہ تاکید کرتے ہیں کہ شروع میں آپ نے سنتیں نہیں پڑھنی۔ صرف فرض پڑھئے، چھ ماہ تک اس کی مکمل پابندی نظر آئے تو تب سنتیں شروع کیجئے گا ورنہ نہیں۔ یہ تلقین ہم اس لئے کرتے ہیں کہ لوگ بالعموم ترک نماز کا سنتوں کی وجہ سے شکار ہوتے ہیں۔ صرف چار، دو اور تین فرض ہوں تو یہ خطرہ 99 فیصد ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی دین دار آدمی ہم سے یہ پوچھتا ہے کہ نماز کی پابندی نہیں ہوتی۔ کیا کریں؟ تو اسے بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ سنتیں ترک کردیجئے۔ اور ہم نے درجنوں کیسز میں دیکھ رکھا ہے کہ اس ترکیب سے فرض کی پابندی ہوجاتی ہے۔ کوئی پوری نماز چھوڑ دے، اس سے بہتر ہے صرف سنتیں چھوڑ دے اور فرض کی پابندی رکھے کہ باز پرس اسی کی ہوگی۔

 دوسرا درجہ ہے تقویٰ کا۔ ہمارے داعی سب سے مہلک غلطی یہ کرتے ہیں کہ ایک آدمی باعمل مسلمان ہی نہیں۔ اسے اس کمی کا احساس ہوا اور کسی حضرت سے رابط کیا تو یہ اسے پہلے ہی دن سے جنید بغدادی بنانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ جو شخص جمعے کی نماز بھی ترک کرتا آیا ہے اس پر پہلے ہی دن آپ جنید بغدادی والا نصاب مسلط کریں گے تو لکھ کر دیتے ہیں یہ دو تین ہفتوں میں ہی اپنی پرانی دنیا میں یہ کہتا ہوا لوٹ جائے گا

”بہت مشکل ہے بھئی، دین پر چلنا اپنے بس کی بات نہیں“

یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہم تقویٰ والی پٹاری کھولتے ہی نہیں۔ ہماری کوشش بس یہ ہوتی ہے کہ وہاں لوگوں کو باعمل مسلمان بننے والا نصاب ہی پیش کریں۔ کوئی تقویٰ کے نصاب کی بات کرے تو ہم کہہ دیتے ہیں

”یہ نصاب نجی سطح پر دستیاب ہے۔ فیس بک وال پر نہیں“

یوں نجی رابطے کی صورت پھر ہم پہلے اسے اس راہ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں اور پھر کسی ”شیخ“ کی جانب روانہ کر دیتے ہیں۔ ہم شیخ وہی تجویز کرتے ہیں جو امیروں سے بے زار ہو اور غریبوں سے محبوب جیسی محبت کرتا ہو۔ پھر چاہے وہ کوئی گمنام ہی کیوں نہ ہو۔ یقین جانیے اس باب میں ہم نے ایسے شیوخ بھی تجویز کر رکھے ہیں جو ہمیں جانتے تک نہیں اور جو باقاعدہ بیعت بھی نہیں کرتے۔ بس متقی ہستیاں ہیں، سو ہم جسے بھیجتے ہیں، یہ کہہ کر بھیجتے ہیں

”ان کے ساتھ وقت گزارا کرو اور ان کی نصیحتوں پر عمل کیا کرو“

داعی کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی ہوگی اللہ سبحانہ و تعالی نے مال پر فرض عبادت رکھی تو بس اتنی کہ سال میں ایک بار 100 میں سے ڈھائی روپے ادا کردو، زکوٰۃ کی فرض عبادت ادا ہوگئی۔ مال اور بدن دونوں کی مشقت والی فرض عبادت رکھی تو 70 سال کی زندگی میں بس ایک بار۔ بدن کے ظاہر کی عبادت رکھی تو گھنٹے ہمیں 24 دیئے لیکن ان میں نماز بس اتنی رکھی کہ کل ملا کر ایک گھنٹہ بھی نہیں لگتا۔ اور بدن کی باطنی عبادت رکھی تو سال میں دن 365 مگر روزے صرف 30 دن کے۔ اگر غور کیجئے تو اس نے اپنے بندے کا 90 فیصد وقت اور پیسہ اسی کے تصرف میں چھوڑا۔ اپنے لیے اس میں سے بہت معمولی سا حصہ مانگا۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فرض عبادات وہ عبادات ہیں جن کی باز پرس ہوگی۔ سو جہاں باز پرس اور جواب دہی رکھی وہاں مقدار بھی بہت ہی معمولی رکھی۔ اور یہ وہ مرحملہ ہے جسے ہم نے باعمل مسلمان بننے کا نصاب بتایا ہے۔ جہاں تک اس مرحلے میں حرام سے بچنے والے معاملے کا تعلق ہے تو وہ تو ہے ہی عین فطری معاملہ۔ کسی فطری کام کی پابندی میں مشکل کیسی؟ مثلاً ہم میں سے کون ہے جو یہ نہیں چاہتا کہ اسے کوئی دھوکہ نہ دے۔ سو اس معاملے میں جو اپنے لئے آپ پسند کر رہے ہیں وہی خود بھی دوسروں کے لئے اختیار کرنا کون سا مشکل کام ہے؟ وہ حدیث مبارکہ تو سب نے ہی سنی ہے کہ ”مومن وہ ہے جو اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرے“۔ اس کا یہی تو مفہوم ہے۔ ہم یہ بات پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہمارے خلاف سازش کرے تو پھر ہم یہ کس حق سے چاہتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے خلاف سازش کی چھوٹ ہونی چاہئے؟ اردو کا تو محاورہ ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ سو اگر سازش سے بچنا ہے تو دوسروں کی خلاف سازشیں کرنی تو بند کرنی پڑیں گی۔ اسی اصول کے مطابق ناپسندیدہ طرزعمل کا دائرہ وسیع کرتے جایئے اور بچتے جایئے۔ آپ ان شاءاللہ ایک بہترین باعمل مسلمان ہوں گے۔

تقویٰ کے مدارج کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مدارج فرائض سے حاصل نہیں ہوتے۔ جنید بغدادی روحانیت کی عظمت تک فرض نمازوں، روزے، حج، اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے نہیں پہنچے تھے۔ ان عبادات سے تو وہ باعمل مسلمان بنے تھے۔ تقویٰ کے تمام مدارج نفلی عبادات سے سر ہوتے ہیں۔ اس میں نفل نمازیں، نفلی روزے، نفلی حج، عمرے اور چیرٹی یعنی صدقات کی ادائیگی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ان مدارج میں بھی سب سے کلیدی کردار مسنون زندگی کا ہے۔ مسنون زندگی کے لئے الگ سے کوئی اعمال تو اختیار نہیں کرنے پڑتے کہ اضافی بوجھ کا ڈر ہو۔ مسنون زندگی یہ ہے کہ کھانا تو ہم سب کھاتے ہیں۔ بس کھانا کھانے کا طریقہ وہ اختیار کرنا ہوتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کا طریقہ ہے۔ راستے پر ہم سب چلتے ہیں، بس راستے پر چلنے کا طریقہ وہ اختیار کرنا پڑتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کا راستے پر چلنے کا طریقہ تھا۔ دوستیاں تو ہم سب لگاتے ہیں، بس دوستی لگانے اور نبھانے کا طریقہ وہ رکھنا ہوتا ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کا اس ضمن میں طریقہ تھا۔ زندگی مسنون ہو تو پھر نفلی عبادات کا گڑ جتنا ڈالتے جائیں گے اتنے ہی تقویٰ کے مدارج طے ہوتے چلے جائیں گے۔ تقویٰ کے اس سفر میں بس احتیاط ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ اپنی آنکھیں آزمائشوں کے لئے کھلی رکھنی ہوں گی۔ ضروری نہیں کہ آزمائشیں آئیں۔ لیکن جب یہ آتی ہیں تو دو شکلوں میں آتی ہیں۔ یا تو زندگی میں نعمتوں کی فراوانی ہوجاتی ہے۔ بالعموم فراوانی کو ”برکت“ کی نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ یہ برکت صرف اس صورت میں ہے جب یہ آپ کے اعمال میں کوئی کمی کوتاہی نہ لا پائے۔ اگر اس کے نتیجے میں اعمال کمزور ہوتے چلے جائیں تو سمجھ جایئے کہ آپ آزمائش میں صرف ہیں نہیں بلکہ اس میں فیل بھی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

آزمائش کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ مشکلات شروع ہوجاتی ہیں۔ مشکلات کو بھی بالعموم دین دار لوگ بڑی لاپروائی سے ”امتحان“ قرار دیدیتے ہیں۔ جی ہاں! یہ امتحان ہے بھی مگر اس صورت میں کہ یہ آپ کی دین داری کا پتہ تک نہ ہلا سکے۔ اگر آپ بے صبرے ہوگئے۔ واویلے شروع کردیئے اور اعمال میں بھی کوتاہی شروع ہوگئی تو آپ اس امتحان میں فیل ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم سے کوئی کہتا ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے آزمائشوں والا سبق سب سے پہلے پڑھاتے ہیں۔ اور صاف کہہ دیتے ہیں کہ اگر آزمائشوں کا سامنا نفسیاتی یا اعصابی کمزوری کے سبب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو پھر رسک مت لیجئے۔ بس باعمل مسلمان ہی رہئے۔ اور اس کا دائرہ ذرا وسیع کرتے چلے جایئے۔ مثلاً کبھی کبھی نفلی نماز اور روزے کا چلن بھی اختیار کر لیجئے۔ وقتاً فوقتاً کسی غریب کی مدد کردیا کیجئے۔ اس زمانے میں کوئی باعمل مسلمان بن جائے، یہ بھی کوئی معمولی مقام نہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

Related Posts