حکومتی اقدامات کے باعث مجموعی اقتصادی صورتحال بہتر ہورہی ہے، میاں زاہد حسین

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوج کے خلاف پروپیگنڈہ مہم پر قانونی کارروائی کی جائے،میاں ز اہد حسین
فوج کے خلاف پروپیگنڈہ مہم پر قانونی کارروائی کی جائے،میاں ز اہد حسین

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی:ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے مجموعی اقتصادی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔تاہم انڈسٹریل سیکٹر میں صرف بڑی صنعتیں ترقی کر رہی ہیں۔

درمیانی اورچھوٹی صنعتوں کی ترقی کے لئے بھی اقدامات ضروری ہیں۔اقتصادی صورتحال میں تبدیلی کی وجہ سے درآمدات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ بجٹ کے خسارے کو کنٹرول میں رکھا جا سکے۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جولائی سے مارچ تک بڑی صنعتوں نے 22.4 فیصد ترقی کی ہے جو گزشتہ سال سے کم مگر خوش آئند ہے۔

جن شعبوں نے ترقی کی ہے ان میں تعمیرات، گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں، ٹیکسٹائل، ادویہ سازی اور فوڈ کمپنیاں شامل ہیں۔صنعتوں کی صورتحال بہتر ہے مگر روزگار کے وہ مواقع پیدا نہیں ہو رہے ہیں جن کی ضرورت ہے اس لئے ایس ایم ایز پر بھی توجہ دی جائے۔

انھوں نے کہا کہ معاشی ترقی کے لئے شرح سود کو کم رکھنا جتنا ضروری ہے کرونا وائرس پر قابو پانا بھی اتنا ہی ضروری ہے اور اگر اس سلسلہ میں بروقت اقدامات کئے گئے ہوتے تو معاشی حالات مزید بہتر ہوتے۔

درآمدات میں سب سے زیادہ خرچہ پٹرولیم گروپ کی امپورٹ پر آتا ہے جس کا حل مقامی ذرائع سے تیل و گیس حاصل کرنے اور ریفائنریاں لگانا ہے تاکہ تیار مصنوعات کی درآمد کم اور خام مال کی درآمد بڑھاکر زرمبادلہ بچایا جا سکے۔

تیل کے بعد مشینری کا نمبر آتا ہے مگر اس میں بھی سارا زور موبائل فونز کی درآمدات پر ہے۔پڑوسی ملک موبائل بنانے والے چھ بڑے ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں گاڑیوں کی طرح ابھی تک صرف فون اسمبل کئے جا رہے ہیں۔

تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ درآمدات فوڈ گروپ میں کی جا رہی ہیں جس میں جولائی سے مارچ تک 1.8 ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کیا گیا ہے جبکہ ملک میں کاشت کا پوٹینشل ہو نے کے باوجود 393 ملین ڈالر کی چا ئے درآمد کی جا رہی ہے۔

میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ گزشتہ دو سال سے گندم اور چینی بھی درآمدی اشیاء میں شامل ہو گئی ہیں جبکہ کپاس کی درآمدبھی 1.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جس پر قابو پانے کے لئے زرعی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

Related Posts