ملک کا سیاسی منظر نامہ، نگران حکومت اور انتخابات کی آس

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں اس وقت ایک بھونچال برپا ہے جس میں بیان بازی، سیاسی رسہ کشی، چالیں، سیاستدانوں کی اداروں سے ہم آہنگی کی تمنا اور نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل سمیت بہت سے عناصر غور طلب ہیں جن  میں  آنے والے دنوں میں بہتری یا ابتری کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوجائیں گے۔  

حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے تاحیات قائد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی پر زور شور سے استقبال کی تیاریاں شروع کی گئیں، اسی دوران نگران وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی کا وہ خوبصورت بیان سامنے آیا جس میں نواز شریف کی گرفتاری کا اشارہ دے دیا گیا جو ظاہر ہے کہ پارٹی قیادت کے ہاضمے کیلئے کوئی اچھی معجون ثابت نہیں ہوئی۔

نتیجتاً سابق وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ اور سابق وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب سمیت پارٹی قیادت نے نگران وزیرِ داخلہ کو ان کی اوقات یاد دلاتے ہوئے ان کے سیاسی قد پر بھی انتہائی چابکدستی سے وار کیے جنہیں کوئی بھی درد مند دل نظر انداز نہیں کرسکتا  اور بطور سابق سفیر پاکستان ، راقم الحروف  کا شمار بھی ایسے ہی درد مندوں میں ہوتا ہے۔

اسی دوران نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی جانب سے یہ بیان کہ شفاف انتخابات تو عمران خان کے بغیر بھی ہوسکتے ہیں، عوامی تنقید ، انسانی حقوق کمیشن کی تنقید اور پھر پی ٹی آئی رہنماؤں کی تنقید کا باعث بنا کیونکہ بطور نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا یہ منصب ہی نہیں کہ وہ انتخابات عمران خان کے ساتھ یا ان کے بغیر کرنے کی بات کریں۔ انتخابات کی تاریخ دینا تک الیکشن کمیشن کا کام ہے اور یہ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ قانون کے مطابق   اپنے فیصلوں کے تحت عمران خان کو الیکشن لڑنے کے قابل ہونے یا نہ ہونے دیں،  شواہد کی بنیاد پر قید کی سزا سنائیں یا ان کی آزادی کا حکم دے دیں جس سے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی  آس اور امید بڑھ سکتی ہے۔

یہاں ہم ایک بار پھر ن لیگی قیادت کی بیان بازی کا ذکر کردیں کہ ہر بار جب بھی ایسی بیان بازی اور ایک دوسرے کے خلاف بیانات کو توپوں کے گولوں کی طرح داغے جانے کی نوبت آتی ہے تو عالمی سطح پر ہماری جو تعریفیں ہوتی ہیں، وہ بیان سے باہر ہیں کیونکہ دنیا کے ہر ملک کا سفیر جو اسلام آباد میں تعینات ہے، وہ اپنے اپنے ملک کو پاکستان میں ہونے والی پیش رفت سے آگہی دینا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے ایسی تمام تر فیوض و برکات سے بھرپور گفتگو کے نکات اپنے ملک کو ارسال ضرور کرتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک شخص جسے پاکستان میں عدالتوں نے سزا سنائی اور جو اپنے علاج کا بہانہ کرکے بیرونِ ملک کی پرواز پکڑ کر اڑن چھو ہوگیا  اور اب خدا خدا کرکے اس کی وطن واپسی کی تاریخ سامنے آئی ہے، نگران وزیر داخلہ نے صرف اتنا کہا کہ اس کا فیصلہ قانون کرے گا اور وہ خود بھی گرفتار ہونا  چاہیں گے تو اس پر کہا گیا کہ اس کا فیصلہ عوام کرے گی، قانون نہیں جو بہت عجیب سی بات ہے ۔ کم از کم دنیا کیلئے یا اپنے عوام کیلئے ہی کوئی ایسا بیان دے دیا جاتا جس میں کوئی منطق یا فلسفہ نظر آتا۔ اگر سزا یافتہ اشخاص کا فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے تو ہر پارٹی اور ہر گروہ عدالت کے فیصلوں کو عوامی میدان میں لے کر جانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

ملک کاقانون اور اخلاقیات اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ ہماری عدالتیں ابھی موجود ہیں اور عدالتی فیصلے روندنے کے بعد بھی قانون حرکت میں نہ آئے تو کم از کم بیانیے کی حد تک ہی قانون کی پاسداری کی بات کی جانی چاہئے تھی جو ن لیگی قیادت کی جانب سے سامنے نہیں آسکی جس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔

انتخابات کی بات کی جائے تو آئندہ عام انتخابات ملک بھر کے 859 حلقوں میں ہوں گے جن میں سے 266 حلقے قومی جبکہ 593 صوبائی اسمبلی حلقے شامل ہیں۔ملک بھر میں 91ہزار 800 پولنگ اسٹیشنز قائم ہوں گے جن میں سے عام پولنگ اسٹیشنز 41ہزار800، حساس 32ہزار508 جبکہ 17 ہزار 411 انتہائی حساس ہوں گے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 10 لاکھ اہلکار اور افسران فرائضِ منصبی سرانجام دیں گے۔

حال ہی میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی جانب سے ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا عندیہ دیا گیا اور عوام سے اس کے متعلق سوالات بھی کیے گئے جبکہ اس سے قبل جہانگیر خان ترین جو عمران خان دورکے آغاز سے کچھ ہی وقت قبل اپنے جہاز میں سیاسی قائدین کو لا لا کر عمران خان کی جھولی میں ڈالتے رہے، ان کی جانب سے استحکامِ پاکستان پارٹی کا قیام عمل میں لایاگیا اور ایک نئی سیاسی جماعت سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی بنا رکھی ہے جس کا نام پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز رکھا گیا ہے۔

دراصل ملک کی مرکزی سیاسی جماعتوں کی جانب سے جب عوام کے حقِ رائے دہی اور ووٹوں کے حصول کے بعد اور اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر عوام کی مرضی کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں اور عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق ہی میسر نہیں آتے، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عوام کو اپنے اندر سے ایک نئی قیادت سامنے لانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تاہم پاکستان میں قیادت عوام کے اندر سے تو سامنے نہ آئی لیکن خود پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں نے ہی تقسیم در تقسیم ہو کر نئے دھڑوں میں بٹنے کا فیصلہ کر لیا۔

پیٹرولیم مصنوعات کی بات کی جائے تو پاکستان میں 90 فیصد پٹرولیم مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں جبکہ محض10فیصد پیداوار پاکستان میں ہوتی ہے، پاکستان میں 2014 میں خام تیل کے ذخائر میں 387.49 بیرلزموجودتھے اور2023میں یہ تعداد 92.91 تک گر گئی۔یہی وجہ ہے کہ جب پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کا شکوہ کیا جاتا ہے تو حکومت کی جانب سے ایک ہی جواب سامنے آتا ہے کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہیں۔ ڈالر آج بھی سستا ہوا جس کی قیمت انٹر بینک میں 288روپے  75 پیسے اور اوپن مارکیٹ میں 290 روپے ہے تاہم پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان چھوتی نظر آتی ہیں جس کا اثر اشیائے ضروریہ پر بھی پڑتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر سب سے زیادہ تنقید شہباز شریف حکومت کے باعث ہورہی ہے جس نے آئی ایم ایف سے معاہدہ تو کرادیا اور ملک کو ڈیفالٹ کے خطرات سے نکالنے کی دعویدار بھی بنی ، تاہم ملک پر جو مہنگائی کا طوفان آیا اور ملکی خودمختاری کو آئی ایم ایف سے ڈیل کے دوران داؤ پر لگایا جانا جس طرح عوام کی طرف سے تصور کیا گیا، اس کے اثرات و مضمرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ نگران حکومت کے تحت بھی مہنگائی کم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ۔

Related Posts