افغانستان کا معاشی مستقبل اور سی پیک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

افغانستان پر مجاہدین نے قبضہ کر لیا۔ ایک گولی بھی نہیں چلائی، کوئی خانہ جنگی یا مزاحمت نہیں۔ لڑکیوں کے اسکولوں کو زبردستی بند نہیں کیا گیا۔ خواتین اور اقلیتوں پر کوئی ظلم نہیں کیاگیا۔ کسی ملک کے سفارت کار یا سفارت خانوں پر کوئی حملہ نہیں۔ کوئی یرغمال نہیں بنایا گیا اور نہ ہی کوئی اور قہر نازل ہوا۔

اور مندرجہ بالا تمام باتیں اچھی نہیں ہیں۔ کم از کم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے کوئی نیک شگون قرار نہیں دی جاسکتیں۔

امریکہ کو افغانستان میں پر امن تبدیلی کا گمان تک نہیں تھا، نہ ہی اس کی پیشگوئی کی گئی۔ بھارت نے اپنی خفیہ آپریشنل صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا جبکہ نیٹو ممالک افغان طالبان کو ٹی ٹی پی سمجھنے کی غلطی کرچکے تھے۔ 

غور کیجئے تو تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امریکہ کو 1958 سے ایک خیالی دشمن کی ضرورت رہی ہے جس کے خلاف جنگ چھیڑی جاسکے۔

کورین جنگ سے جے ایف کے کے کیوبا تک، مکارتھی کے کمیونزم سے لے کر کارٹر کے ایران تک، ایران سے بش کے عراق تک اور ریگن کے سوویت یونین سے لے کر کولمبیا تک، لیبیا سے لے کر افغانستان تک اور اب چین تک بھی امریکا خیالی دشمن کی تلاش میں ہے۔ امریکا کسی تصوراتی دشمن کو پیدا کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا چاہے وہ جنگی ہو یا اقتصادی کیونکہ اس سے امریکا کی عسکری و اقتصادی نفسیاتی بیماری کو فروغ ملتا ہے۔ اس سے مقامی جی ڈی پی میں اضافہ ہوتا ہے اور حکومت 34 فیصد سے زائد کارپوریٹ ٹیکسز اکٹھے کرپاتی ہے۔ جو کچھ جنگ تخلیق کرنے پر خرچ کیا جاتا ہے، وہ واپس وصول ہوجاتا ہے۔ امریکا کے شہری، کاروباری برادری، پینٹا گون اور تم سے بے حد بڑا ہونے کا نام نہاد تصور بھی فروغ پاتا ہے۔ دنیا بھر میں عسکری چھاؤنیوں کو توسیع دینے کے عزم کو بھی مت بھولیے گا کیونکہ امریکا دنیا بھر کے 80 ممالک میں 120 سے زائد چھاؤنیاں بنا چکا ہے۔

کیا کوئی بھول سکتا ہے کہ افغان امریکا جنگ کے دوران چوٹی کی 14 امریکی دفاعی و متعلقہ کمپنیوں نے تن تنہا اپنے حصص کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں 1 اعشاریہ 8 ٹریلین ڈالر کی خطیر رقم وصول کی؟

آئیے اس نکتے سے شروع کرتے ہیں کہ ایک مستحکم پاکستان بھارت کے حق میں نہیں ہے۔ آئیے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ معاشی طور پر مضبوط پاکستان بھارتی تھنک ٹینکس کے لیے موت ہے۔ اور صرف ان دو وجوہات کی بنا پر بھارت نے افغانستان میں مداخلت کی۔ ایک ایسا ملک جس کے ساتھ بھارت کے تاریخی، سرحدی، ثقافتی یا معاشی تعلقات سمیت کوئی بھی روابط نہیں۔ یہاں بھارت نے تقریباً 2 درجن سفارت خانے کھولے، ہزاروں کا سفارتی عملہ رکھا اور جاسوسی کی ٹیم پر بے حساب دولت خرچ کی۔ اس سب کا مقصد صرف ایک تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کرکے اسے غیر مستحکم کیا جائے جس سے پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنا مقصود تھا۔ 

اچھی بات یہ ہوئی کہ افغانستان میں جو ہوا اس کے نتیجے میں بھارت کی حکمتِ عملی اسی کی طرف پلٹی اور بالکل سیدھے سادے انداز میں چاند پر تھوکا ہوا انہی کے منہ پر آگرا۔

دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اسی اصول کی بنیاد پر سابق صدرِ افغانستان اشرف غنی کے دورِ حکومت میں بھارت افغان گٹھ جوڑ قائم ہوا۔ اشرف غنی نے اندرونِ خانہ بھارت کی مدد کی جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا تھا جس میں افغان کٹھ پتلی حکومت سہولت کار بن گئی۔

بھارت کایہ منصوبہ اس وقت سبوتاژ ہونا شروع ہوا جب ایران نے ایک سال قبل غیر متوقع طور پر تعلقات منقطع کر لیے۔ ایرانی قوم ہوشیار ہے جس نے پیسے کی بو کے پیچھے چلتے ہوئے بھارت سے زیادہ چین کو ترجیح دی۔ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام (بی آر آئی) کے ذریعے ایران میں 620 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا جس کا تعلق سی پیک سے ہے اور ایران نے فوری طور پر اپنی خارجہ حکمتِ عملی تبدیل کی۔ اس بانسری کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی راگ کی جگہ چینی دھنیں بجنا شروع ہوئیں۔ کتھک کی جگہ کنگ فو نے لے لی جو پاکستان کیلئے اچھا اقدام ثابت ہوا اور یہاں ایک اور بات شامل کرنا ضروری ہے کہ انٹیلی جنس کی دنیا میں کوئی چیز اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر نہیں ہوتی۔ اگلے 14 ماہ میں افغانستان پر قبضہ کرنے والے مجاہدین کیلئے یہ اہم پیشکش تھی جسے تاریخ نے ثابت کیا۔ ایران یہ بات جانتا تھا۔ چین نے اسے سہولیات فراہم کیں اور پاکستان نے کیا کیا، وہ کسی اور وقت کیلئے اٹھا رکھتے ہیں۔

کوئی شخص اگر یہ سمجھتا ہے کہ پورا افغانستان اچانک ہی مجاہدین کی جھولی میں گر گیا تو اسے اس طویل المدت جنگ کی تیاریوں اور در اندازیوں کی بین الاقوامی تاریخ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ افغان فوج کو امریکیوں نے اکٹھا کیا اور انہوں نے اس بے کار فوج پر پاکستان آرمی کے 11 سال کے بجٹ کے مساوی رقم یعنی 103 ارب ڈالر خرچ کر ڈالے۔ ہوا کچھ یوں کہ امریکیوں نے سب سے پہلے فوج میں غیر پشتون افراد شامل کیے جن میں تاجک، ازبک اور دیگر اقوام کے لوگ شامل ہیں جس سے عدم توازن پیدا ہوا۔ پھر افغانستان میں اس نسل کی 1 کروڑ 70 لاکھ آبادی میں سے کچھ پشتونوں کو مجبوراً شامل کیا گیا۔ میرے خیال میں یہ مجاہدین کیلئے بہترین راستہ تھا کہ ان کے ہمدرد بھرتی کی سطح پر فوج میں جگہ بنا لیں۔ یہی بات طالبان کو اس وقت کام آئی جب مجاہدین نے قبضے کا اعلان کیا۔ افغان فوج کی بڑی تعداد نے فوراً ہتھیار ڈالنا شروع کردئیے۔

مسلح افواج بھی نفسیاتی رجحان سے متاثر ہوتی ہیں۔ ایک بار جب فوجیوں کی اکثریت اعلیٰ عہدیداران کو ہتھیار ڈالتے ہوئے دیکھتی ہے تو نچلے درجے کے فوجیوں کے پاس کوئی قیادت باقی نہیں رہتی جس کی بنیاد پر جنگ لڑی جاسکے۔ وہ بھی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہی افغانستان میں ہوا۔ ایک بھی گولی چلائے بغیر 19 روز میں فوج نے ہتھیار ڈال کر شکست قبول کر لی۔

جغرافیائی اعتبار سے وسط ایشیاء کے بیشتر ممالک چاروں طرف سے خشکی میں گھرے ہوئے ہیں اور ایک انگوٹھی ان کا احاطہ کرتی ہے جس میں روس، چین، ایران، پاکستان اور ترکی جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان تمام ممالک کو زمین کے ذریعے جوڑنے والی معاشی سرگرمیوں میں واحد رکاوٹ افغانستان بنا ہوا تھا۔ تمام دیگر وسط ایشیائی ممالک اس انگوٹھی کے اندر آتے ہیں۔ سلک روڈ کے تصور کے خاتمے کے بعدجدید دور میں سڑکوں اور سرنگوں کے ذریعے پہلی بار ایک پورے خطے کی تصویر سامنے آئی ہے، اس کا تصور کریں۔

اب سی پیک اور بی آر آئی کا تصور کریں کہ پاکستان گہری آبی بندرگاہ، گوادر اور خطے کی تمام اقوام کےساتھ سڑک کے رابطے کے باعث سبقت حاصل کر چکا ہے جو بین الاقوامی جی ڈی پی کا 56 فیصد سے زائد پیدا کرسکتا ہے۔ تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ اس خطے میں ہے۔ روس تیل پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ معدنیات کے بہترین ذخائر افغانستان میں ہیں جہاں 1 ٹریلین ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات چھپی ہوئی ہیں۔ چین معاشی طاقت کے طور پر دنیا کی قیادت کر رہا ہے جبکہ پاکستان اس کا ہمہ وقت اتحادی ہے۔

یہاں ہونے والی معاشی سرگرمیاں کسی بھی ملک کیلئے اہم ہیں۔ گوادر سے جوڑنے والے تمام ممالک کیلئے افغانستان کے ذریعے ایک محفوظ راستہ اور وسط ایشیائی ممالک اور ایران کے راستے ترکی کیلئے ایک محفوظ راستہ میسر آئے گا جو مغربی یورپ کو ان ممالک سے جوڑ سکتا ہے۔ عالمی جی ڈی پی کا 92 ٹریلین ڈالر اور اس کا 56 فیصد ان ممالک میں محصور ہے اور جدید دور میں پہلی بار ایک مشترکہ تجارتی بلاک بنے گا جس کا حتمی نتیجہ ان ممالک کی خوشحالی ہوگی جو پاکستان اور اس کی گہری آبی بندرگاہ کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔

سادہ الفاظ میں افغانستان مغرب اور بھارت کے معاشی غلبے کے خوابوں کا قبرستان ثابت ہوا۔ یہاں ایک نئی صبح طلوع ہورہی ہے۔ اس وقت امریکا سب سے بری حرکت جو کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ بیرونِ ملک موجود افغانستان کے اثاثے منجمد کر ڈالے جو 15 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہیں۔ میری پیشگوئی یہ ہے کہ امریکا قسطوں میں ایسا ضرور کرے گا۔ کیا اس سے افغان معیشت تباہ ہوجائے گی؟ جی نہیں۔عارضی طور پر افغانستان کی معیشت میں انتشار ضرور آئے گا تاہم اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی پہلے سے توقع کی جارہی تھی۔

نئی صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشی طاقت کا توازن مشرق کی طرف جھک چکا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اتنی بڑھ جائے گی جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اگلے 6 سے 12 ماہ میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی اور تیزی کا یہ عمل جاری رہے گا۔ افغانستان کو تعمیر نو اور ترقیاتی فنڈز کیلئے بے پناہ رقم حاصل ہوگی جس سے سڑکیں اور ٹیکس اتھارٹی، فنانشل مارکیٹس، ترقیاتی منصوبے، بینکنگ سیکٹر، ڈیمز اور دیگر سہولیات میں اضافہ ہوگا۔

جن ممالک کا اوپر ذکر کیا گیا، یہ پورے خطے کی شکل و شباہت بدل دیں گے اور پاکستان ان شاء اللہ ان تمام سرگرمیوں کا مرکز ہوگا۔

خوشخبری یہ ہے کہ اچھے دن آگئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 70 ہزار جانوں کی قربانی دی، اور یہ قربانی ہمیں اس مرحلے تک لائی ہے۔ آئیے ان تمام افراد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ اس کی طرف پہلا قدم یہ ہے کہ پاکستانی عوام متحد رہیں اور جعلی خبروں سے ہوشیار رہیں۔ ہم وطنوں کو بھی ان کے خلاف ہوشیار کریں۔ 

Related Posts