نئے عالمی نظام کا بنیادی تصور

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 عالمی سیاست کا بغور مشاہدہ رکھنے والے واقف ہیں کہ حالیہ سالوں میں چین اور روس کی جانب سے نئے عالمی نظام کی بات ایک تواتر سے کی جارہی ہے۔ سال قبل تک تو یہ محض باتیں تھیں لیکن اب اس جانب باقاعدہ بڑی پیش رفت بھی شروع ہوچکی ہے۔ اس کا پس منظر سمجھنے کے لئے یہ سوال بے حد اہمیت رکھتا ہے کہ آخر کسی نئے عالمی نظام کی ضرورت محسوس کیوں ہوئی اور وہ بھی اتنی بڑی سطح پر؟

موجودہ عالمی نظام “رولز بیسڈ انٹرنیشنل آڈر” کہلاتا ہے۔ اگر اپ اس عنوان پر غور کیجئے تو دو منٹ میں واضح ہوجائے گا کہ یہ نظام ایک عالمی فراڈ اور بدمعاشی کے سوا کچھ نہیں۔ ملکی یا عالمی سطح پر دستوری راہ یہ ہوتی ہے کہ پہلا نمبر آئین کا ہوتا ہے جو بنیادی حقوق کا تعین کرتا ہے۔ اس کے بعد قوانین کا نمبر آتا ہے جو ان حقوق کی فراہمی کے اصولوں کی تشکیل اور خلاف ورزی پر سزا کے بندوبست کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ آئین اور قانون دونوں پارلیمنٹ سے منظور ہوتے ہیں۔ سب سے قابل غور تیسری چیز ہے جو رولز کہلاتے ہیں۔ یہ رولز ادارے اپنے روزمرہ کے امور چلانے کے لئے خود بناتے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوتے۔ یہ اداروں کی انتظامیہ خود ہی بناتی اور وقتا فوقتا تبدیل بھی کرتی ہے۔

جس طرح قانون کے لئے اصول یہ ہے کہ وہ آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہئے، بعینہ رولز کے حوالے سے اصول یہ ہے کہ یہ آئین اور قانون دونوں سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں۔ قانون کی عالمی عملداری بھی انہی خطوط پر یوں تشکیل پائی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کو عالمی آئین کی حیثیت حاصل ہے۔ اس چارٹر کے نیچے پھر مختلف قسم کے تجارتی، جنگی، اور تنازعاتی فیصلوں کے عالمی قوانین ہیں۔ جس طرح ریاست میں قانون آئین سے متصادم اور رولز آئین و قانون دونوں سے متصادم نہیں ہوسکتے بعینہ عالمی سطح پر یہی اصول چلتا ہے۔

سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سے چلنے والے “رولز بیسڈ انٹرنیشنل آڈر” کا عنوان ہی یہ واضح کر رہا ہے کہ اقوام متحدہ کا چارٹر اور عالمی قوانین جائیں بھاڑ میں، دنیا ان رولز کے مطابق چلے گی جو امریکہ اور اس کے اتحادی طے کریں گے۔ یعنی آئین اور قانون کی جگہ رولز کی اجارہ داری ہوگی۔ چنانچہ پچھلے تیس برس کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے من مانیاں کرکے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں۔ عالمی قوانین اجازت دیں نہ دیں امریکہ اور اس کے چند اتحادی کمزور ممالک کا بازو مروڑنے کے چلن پر گامزن رہے۔

مثلاََ عالمی قوانین کے مطابق امریکہ یا مغرب کو اس بات کا کوئی حق نہیں کہ پاکستان سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے آئین کی فلاں فلاں شقیں ختم کرے، یا اپنے تعلیمی نظام میں فلاں فلاں تبدیلیاں لائے اور یا یہ کہ فلاں کو اقتدار میں نہیں آنا چاہئے۔ مگر یہ سب امریکہ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں کرتا آیا ہے اور ہر جگہ اس کے مغربی اتحادی اس کے ہمنوا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ روس اور چین جیسے بڑے ممالک کے داخلی معاملات میں بھی دخل دیتے آئے ہیں۔ چینی اور روسی نظام حکومت کے خلاف ان مہم کوئی سربستہ راز نہیں۔ عالمی قوانین کے خلاف جاتے ہوئے ساری دنیا سے ان کا بس ایک ہی مطالبہ رہا اور وہ یہ کہ جمہوریت صرف “لبرل” ہی قابل قبول ہوگی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس نے امریکہ کے چند اتحادیوں کے سوا پوری دنیا کی ناک میں ایسا دم کیا کہ اب دنیا چین اور روس کی چھتری تلے نئے عالمی نظام کے لئے کمر کس چکی ہے۔

نئے عالمی نظام کے حوالے سے گزشتہ روز روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ایک تاریخی تقریر کی ہے۔ یہ تقریر ماسکو بیسڈ تھنک ٹینک “ولدائی کلب” کی سالانہ کانفرنس میں ہوئی۔ حسب روایت اس بار بھی کانفرنس کے شرکاء دنیا بھر کے دانشور اور صحافی تھے اور حسب روایت اس بار بھی پیوٹن نے خطاب کے بعد گھنٹوں پر محیط سوال و جواب کی نشست کی۔ گزشتہ روز کی کانفرنس میں ولادی میر پیوٹن نے موجودہ عالمی نظام کی خامیوں کو واضح کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں ایک زبردست جملہ کہا۔ کہنے کو بس ایک جملہ ہے مگر اس پر غور کیجئے تو موجودہ عالمی نظام پر ایک ہمہ گیر و بلیغ تبصرہ ہے۔ پیوٹن نے کہا

“ہم سے ہمیشہ یہ کہا گیا کہ ہم تمہیں وارننگ دے رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں تم ہوتے کون ہو کسی کو وارننگ دینے والے ؟”

موجودہ نظام کے بخیے ادھیڑنے کے بعد پیوٹن نے نئے ممکنہ نظام کا جو بنیادی تصور پیش کیا ہے وہ بے انتہاء اہم ہے۔ عالمی لبرل میڈیا تو فی الحال شاید سکتے کی کیفیت میں ہے مگر عالمی سوشل میڈیا پر پیوٹن کے اس تصور نے ایک غیر معمولی ارتعاش پیدا کیا ہے۔ سچ پوچھئے تو پیوٹن کی تقریر کا یہ حصہ مسلسل امریکی دباؤ، پابندیوں اور جنگوں کا سامنا کرنے والے عالم اسلام کے لئے تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ پیوٹن نے اپنے ورلڈ آڈر کو “سویلائزیشنل ورلڈ آڈر” کا عنوان دیا ہے۔ جس طرح مغربی عالمی نظام کے عنوان سے ہی واضح تھا کہ یہ نظام چند ممالک کی بدمعاشی کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح پیوٹن کے مجوزہ نظام کا بھی عنوان ہی پورا پیش منظر واضح کررہا ہے۔

روس اور چین کے اس نئے عالمی نظام میں دنیا کی ہر تہذیب اور کلچر کو تحفظ حاصل ہوگا۔ کسی بھی ملک کو کسی دوسرے ملک کے مذہب، کلچر یا سیاسی نظام میں دخل کا حق نہ ہوگا۔ یہ ہر تہذیب اور ملک کی اپنی مرضی ہوگی کہ وہ اپنا نظام کس شکل کا ترتیب دیتے ہیں اور کس طرح چلاتے ہیں۔ ریاستی امور میں غیرملکی مداخلت ممنوع ہوگی۔

اس تقریر کا متن پڑھنے کے بعد ہمارا ذہن فورا برکس کے ممبر ممالک کی جانب گیا تو ہم چونک اٹھے۔ اس کے گیارہ میں سے سات ممبرز وہ ہیں جو صدیوں پر محیط تہذیبی پس منظر رکھتے ہیں۔ چینی، مصری، ایرانی، ہندوستانی، افریقی اور مسلم تہذیب کی تاریخ سے کون واقف نہیں ؟ ہمیں یاد ہے کہ جب اگست میں برکس نے چھ نئے ممالک کی بطور ممبر منظوری دی تو ہر طرف سوال اٹھا کہ ایتھوپیا جیسے غیر اہم ملک کو ممبرشپ کیوں دی گئی ؟اس سوال پر مختلف تجزیہ کاروں کے اپنے اپنے اندازے تھے مگر پیوٹن کی گزشتہ روز کی تقریر سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ ایتھوپیا کو اہمیت کیوں دی گئی ؟ ایتھوپیا افریقہ کی قدیم ترین تہذیب ہے۔ بالخصوص مسلم قوم اس کے بادشاہ نجاشی کی تو چودہ سو سال سے ممنون چلی آرہی ہے۔ ایسا شاید ہی کوئی مسلمان رہا ہو جو اسلام کے بالکل ابتدائی دور کے اپنے اس عظیم محسن سے واقف نہ ہو۔

ممالک اور تہذیبوں کے باہمی احترام اور عدم مداخلت کے تصور کو تقویت دینے کے لئے سعودی عرب اور ایران کا ایک ہی گھاٹ سے پانی پینا بجائے خود ایک واضح اشارہ ہے۔ مگر ایک دلچسپ چیز یہ بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ برکس کی صورت تشکیل پا رہے بلاک اور اس کے پیچھے کار فرما سویلائزیشنل ورلڈ آڈر کے تصور میں جہاں قدیم تہذیبی پس منظر رکھنے والے ممالک کی ابتدائی شمولیت بے حد اہم ہے وہیں یہ بھی کچھ کم اہم نہیں کہ برکس کی حدود میں فی الحال “مغربی تہذیب” کو داخلے کی اجازت نہیں۔ اگر سوچیں تو یہ ہمارے دیسی لبرلز کے لئے اطمینان کی بات ہے۔ کیونکہ تہذیبی ورلڈر میں غل غپاڑہ مچانے کے لئے عالمی لبرلز ان کے 2020 سے بند بھاڑے پھر سے جاری کرنے پر غور کرسکتے ہیں۔

لبرلزم بنیادی طور پر مذہب اور تہذیب پر ہی تو حملہ تھا۔ ان کا بنیادی تصور یہی تو ہے کہ کسی مذہب اور تہذیب کو بطور نظام برقرار رہنے کا کوئی حق نہیں۔ بس لبرلزم ہی عالمی طرز حیات ہوگا۔ گویا رنگوں کی بھرمار اور تنوع کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس ایک ہی رنگ چلے گا اور وہ ہوگا لبرل رنگ۔ چنانچہ ہمارے ہاں اس نظام نے وہ پست لوگ پیدا کئے جنہیں نظریاتی افکار کا تو کچھ اتہ پتہ نہیں، مگر یہ شوشہ چھوڑنا قابل فخر سمجھتے ہیں”میں خدا پر یقین نہیں رکھتا” کبھی غور کیا کہ یہ جملہ کہنے والا ہمیشہ لبرل ہی کیوں ہوتا ہے ؟ کیونکہ الحاد لبرل ریاستوں کا فنڈڈ پروجیکٹ ہے۔ ہم شرطیہ کہتے ہیں کہ اگر محمد بن سلمان اچھے دام لگا دے تو وجاہت مسعود پاکستان کے سب سے بڑے “توحیدی” کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔ جنہوں نے برے وقت میں کمیونزم کو پیٹھ دکھا دی تھی وہ اب بھی ایسا کیوں نہیں کریں گے ؟ ادھر سوویت یونین تحلیل ہوا ادھر دیسی کمیونسٹ دیسی لبرل بن گئے۔ نظریاتی زندگی کے ساتھ ایسا بھونڈا مذاق بھاڑے کے ٹٹو ہی کرسکتے ہیں۔

Related Posts