پاک ایران کشیدگی۔۔ کیا کسی طوفاں کا پیش خیمہ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 بلوچستان پر ایران سے حملے کے بعد حکومت پاکستان کی طرف سے اپنے سفیر کو واپس بلوانا اور ایران کے سفیر کو واپس بھجوانا انتہائی اقدام کہا جاسکتا ہے کیونکہ سفارتی آداب کے مطابق کسی ملک سے اپنا سفیر واپس بلوانا سخت گیر قدم سمجھا جاتا ہے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی قوانین کے مطابق کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کی فضائی یا زمینی حدوو کی خلاف ورزی کرے یا میزائل داغ دے یا حملہ کردے تو یہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

بلوچستان کے شہر پنجگور پر ایرانی میزائل حملے کے نتیجے میں پاکستان نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات مدھم کر لیے ہیں جوکہ پاک ایران سفارتی تعلقات میں پہلی بار ہوا ہے۔ پاکستان نے ایران کی جانب سے پاکستانی حدود میں فوجی کارروائی پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے پاکستان میں ایران کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا، تہران میں پاکستانی سفیر نے بھی حکومت کی جانب سے احتجاج کیا اور پھر پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلاتے ہوئے ایرانی سفیر کو پاکستان سے واپس بھیج دیاہے۔

یہ درست ہے کہ اس حملے سے پاکستان اور ایران کے مابین اعتماد، خیر سگالی اور تاریخی تعلقات کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ایران کی بلااشتعال فوجی کارروائی بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور خصوصاً پاک ایران خیر سگالی تعلقات کی تاریخی خلاف ورزی ہے۔

تمام تر صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو درحقیقت ایران ماضی میں پاکستان سے کچھ مطالبات کرتا رہا ہے تاہم ایران کے مطالبات کو زیادہ اہمیت شاید نہیں دی گئی ۔ اس وقت ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ دیگر پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات پہلے سے کشیدہ تھے، ایسے میں ایران کیساتھ بھی آناً فاناً سفارتی تعلقات مدھم کرکے سنگین نتائج کا عندیہ دیا گیا۔

سفارتی زبان میں (Serious Consequences)سنگین نتائج کو سخت الفاظ سمجھا جاتا ہے جس کا مطلب یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان اور ایران نے کڑوا گھونٹ پی کر معاملے کو فوری سنبھالنے کی کوشش نہ کی تو دوطرفہ تعلقات تنزلی کی طرف جاسکتے ہیں۔ اس وقت مشرق وسطیٰ کی جو صورتحال ہے، اس تناظر میں ایران کی نظریاتی قیادت پر داخلی دباؤ بڑھ گیا ہے ۔غزہ کشت و خون کی لپیٹ میں ہے اور دیگر ممالک بھی کشیدگی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

پاکستان کے پاس اس وقت تمام آپشنز موجود ہیں، پاکستان سفارتی، سیاسی، قانونی اور دفاعی اقدامات کر سکتا ہے، سفارتی تعلقات مدھم کر کے پاکستان نے ایک آپشن استعمال کیا ہے اور اسی طرح سے دیگر آپشنز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایران امریکا اسرائیل اور اتحادیوں کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات رکھتا ہے، گزشتہ دنوں چین کی کاوشوں سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات استوار ہوئے لیکن پاکستان پر میزائل حملے کے بعد پاک ایران تعلقات کشیدگی کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کشیدگی کا فائدہ اٹھانے کیلئے ایران کے دشمن ممالک تاک لگائے بیٹھے ہیں اور معاملے کو ہوا دینا ان طاقتور ممالک کیلئے نوشتۂ دیوار نظر آتا ہے جن کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔

 ایسے میں پاکستان اور ایران ایسی دلدل میں پھنس سکتے ہیں جس سے دونوں ممالک کا نقصان تو اپنی جگہ لیکن وہ ممالک جو اب تک ایران کو سرنگوں نہ کرسکے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کی کوشش کرسکتے ہیں اور یہ صورتحال پاکستان کو بھی گہرے گڑھے میں دھکیل سکتی ہے۔ ایران سے پاکستان کی سرزمین پر حملہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جو اعتماد ہونا چاہیے وہ نہیں ہے، اس میں کمی یا کوتاہی دونوں طرف سے ہوسکتی ہے، ہماری وزارت خارجہ، وزیراعظم اور دیگر اکابرین کو پھونک پھونک کر قدم بڑھانا ہوگا اور جلد سے جلد اعتماد کی فضا بحال کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ایران ہمارا برادر اور پڑوسی ملک ہے اور اگر ایران کو کچھ مسائل درپیش تھے تو ان پر سفارتی ذرائع سے بات چیت کرنا زیادہ بہتر ہوسکتا تھا تاہم ایران نے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرکے نیامحاذ کھول دیا ہے اور سفارتی تعلقات مدھم ہونے سے دونوں ممالک کو نقصان پہنچنا ایک قدرتی امر ہے۔

عین توقع کے مطابق پاکستان نے ایران میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے سیستان کے علاقے میں بہت درستگی کے ساتھ بی ایل اے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا، اس کی توقع اس لیے تھی کہ پاکستان نے اپنے سفارتی جواب میں جن سنگین نتائج کا ذکر کیا تھا، ان سے اسی بات کا اندازہ ہوتا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ ایران کی جانب سے اس سلسلے میں کیا ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ اس وقت پورا خطہ ایسے گرداب میں ہے جس سے جیو پولیٹیکل پیچیدگیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ ایران کو نیوٹرالائز کرنے کیلئے اسرائیل، امریکا اور اتحادی ممالک بشمول گلف ممالک تگ و دو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

احتمال اس بات کا ہے کہ عالمی قوتوں کی جانب سے ردِ عمل میں پاکستان کو نہ صرف پذیرائی بلکہ ہر قسم کی مدد کی پیشکش بھی میسر آسکتی ہے، جسے پاکستان کو نہایت حساسیت سے دیکھنا ہوگا۔یقیناً یہ بات پاکستان کی حکمتِ عملی کا حصہ نظر آتی ہے کہ پاکستان نے ایرانی حملے کے 2 دن تک انتظار کیا کہ شاید ایران اپنے الفاظ و کلمات میں کسی ندامت کا اظہار کرے، تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔

اس کے برعکس ایران کا لہجہ وہی دھمکی آمیز رہا جس نے پاکستان کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ اس کے پاس شاید کچھ اور راستہ نہ تھا، سوائے اس کے، کہ ایران کے حملے کا جواب دیا جائے۔ یوں پاکستان کی جانب سے جوابی حملہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے پرپز اینڈ پرنسپل کے عین مطابق ہے جس کے آرٹیکل 1 میں واضح طور پر ذکر ہے کہ کوئی رکن ملک طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک کی علاقائی خودمختاری اور سیاسی آزادی کو نقصان نہ پہنچائے۔ 

دور اندیشی یہ ہونی چاہئے کہ پاکستان غیر دانستہ طور پر کسی ایسی پیچیدگی کا حصہ نہ بن جائے جس سے ان ممالک کے مقاصد حاصل ہوسکیں جو پچھلے کئی برسوں سے ایران کو نیوٹرالائز کرنا چاہتے تھے۔ دونوں ممالک کے عوام یہ نہیں چاہتے کہ 2 مسلمان ممالک کے مابین کشت و خون شروع ہوجائے۔

ایسی کسی ناپسندیدہ ترین صورتحال میں پاکستان کے اندر ایران کے زیر اثر افراد بھی استعمال ہوسکتے ہیں اور ایسی ہی صورتحال ایران میں بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت دانشمندی سے معاملے کو الجھاؤ  کی بجائے سلجھاؤ کی طرف لے کر جائے تاکہ کشیدگی کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔

Related Posts