ٹیم ورک کی ضرورت ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان پہلے ٹیسٹ میچ میں اپنی کارکردگی کی بدولت اچھی پرفارمنس دینے میں کامیاب رہا، تاہم ٹیم کی غیر ذمہ دارانہ کارکردگی اور انگلینڈ کی انتھک محنت کے باعث وہ میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا، وہ دن پاکستان کرکٹ کے لئے برا دن ثابت ہوا۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم اپنے پرجوش شائقین کو مایوس کرتی چلی آرہی ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ کرکٹ میں اچھا کھیل پیش کرنے میں زیادہ ترناکام رہی ہے۔ یہ فارمیٹ کرکٹ میں سب سے مشکل ہے۔ لیکن یہ فارمیٹ سب سے اہم ہے، دنیا کی نمبر 1 کی ٹیسٹ ٹیم بننا کسی بھی ٹرافی جیتنے کے مترادف ہے۔ اس میں کھلاڑیوں کو سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی ذہانت، قابلیت اور دوسری ٹیم سے فائٹ کرنے کے جذبے کو جانچ لیا جاتا ہے، لیکن جب ٹیم ورک کی کمی ہو تو ایسا کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔

اس پوری سیریز کے دوران، کسی کھلاڑی کی کارکردگی نے پاکستان کو کمانڈنگ صورتحال میں رہنے میں مدد نہیں کی۔ شان مسعود کے 150 رن صرف ایک اننگ کے لئے تھے اور بعد میں، وہ نصف سنچری بنانے میں بھی ناکام رہے۔ ایک نصف سنچری کے علاوہ عابد علی ٹیم کے لئے اسکور نہیں کرسکے اور پاکستان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

انتہائی مایہ ناز بلے باز بابر اعظم بھی انگلینڈ میں اپنے مداحوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ تاہم، یہاں ایک چیز کومد نظر رکھنا چاہئے کہ پوری بیٹنگ لائن اپ کا انحصار بابر پر ہے۔ اور یہی بابر کی کارکردگی کی کمی کی بنیادی وجہ ہے۔ جب کہ سچن ٹنڈولکر، رکی پونٹنگ، اور برائن لارا جیسے لیجنڈ کھلاڑی بھی دباؤ میں آکر ناکام ثابت ہوتے رہے ہیں۔

کپتان اظہر علی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، صرف ایک چیز ذہن میں آتی ہے، اب وقت ہے کہ قدم اٹھائیں یا عہدہ چھوڑیں۔ اظہر علی کی بیٹنگ بنیادی طور پر کبھی اچھی نہیں رہی۔ اظہر نے آسٹریلیا میں ڈبل سنچری اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈے نائٹ فکسچر میں ٹرپل سنچری بنائی۔ یہ لگ رہا تھا کہ اسد شفیق اور اظہر علی پاکستان کے مڈل آرڈر کے اگلے نمایا بلے باز ہوں گے لیکن افسوس کہ اظہر علی پر دباؤ بڑھ گیا اور ان کے سوا کوئی بھی کھلاڑی خاطر خواہ پرفارمنس نہیں دے سکا۔

اب چلتے ہیں بالرز کی طرف، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ، جنہیں نیا وسیم اور وقار کی جوڑی کہا جاتا تھا، نے بھی اپنی ٹیم کے لئے کچھ نہیں کیا۔ فاسٹ بولروں کا عموماًایک تاثر یہ ہوتا ہے کہ ان کا پورا زور بلے باز کی وکٹ لینے پر ہوتا ہے، نسیم شاہ صرف ایک جانب بولنگ کرتے رہتے ہیں، کوئی سست بالز یا باؤنسر نہیں کرتے۔ ایسا لگتا ہے جیسے نسیم شاہ تھک گئے ہوں۔

ہمارے ماہر اسپنر یاسر شاہ نے پچھلی 4 اننگز میں 11 وکٹیں حاصل کیں۔ اس کے بعد محمد عباس (5 وکٹ) پاکستانی بالرز 4 اننگز میں 5 سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ہر ایک دوسرے پر انحصار کرکے کسی معجزے کا انتظار کر رہا ہے۔ ٹیم ورک کی کمی کی وجہ سے پاکستان کو ٹیسٹ سیریز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انتظامیہ اور کوچنگ عملے کو اس سلسلے میں اہم فیصلے کرنے ہوں گے اور انہیں قومی ٹیم میں نکھارلانے کے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔
 

Related Posts