غزہ میں جنگ بندی کی امید اور آس ٹوٹ چکی۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

غزہ میں اسرائیل نے گزشتہ سال 7اکتوبر سے جاری وحشیانہ حملوں میں 35 ہزار 232 فلسطینیوں کو شہید کردیا جن میں ہزاروں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور اب جنگ بندی کی باتیں سامنے آئیں تو غزہ کے مظلوم فلسطینیوں میں ایک امید کی کرن جاگی اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔

یہ تمام تر صورتحال 1 گھنٹے تک ہی برقرار رہی اور اس کے بعد خبر سامنے آئی کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے حماس سے قاہرہ میں مصر اور قطر کے توسط سے جنگ بندی قبول نہیں کی مزید براں اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع نے بھی بیان داغا تھاکہ ہم رفح پر حملہ کردیں گے۔

سوال یہ ہے کہ اسرائیل پر پریشر کس طرح ڈالا اور برقرار رکھا جائے؟ اسرائیل میں بھی لیفٹ ونگ اور رائٹ ونگ کی سیاست چلتی ہے۔ وہاں رائٹ ونگ کا ماننا ہے کہ اگر ہم حماس کو ختم کیے بغیر غزہ کی جنگ سے کنارہ کش ہوئے تو یہ اسرائیل کی کھلم کھلا شکست ہوگی جو کہ قابل قبول نہیں۔

جب سے اسرائیل بنا ہے رائٹ ونگ اسرائیل پر مسلسل اثرات مرتب کررہا ہے۔ یہاں یہ جاننا بھی ضرروی ہے کہ اسرائیلی لابی امریکا کے ہر شعبے پر قابض ہے اور امریکا کی قانون سازی میں خاص طور پر حالیہ اینٹی سیمیٹزم کے قانون میں ترمیم کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل امریکی حکومت میں کس حد تک پنجے گاڑ چکا ہے۔

امریکا میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں اسرائیلی لابی زیادہ فعال ہے، اسرائیل کے مفادات کا معاملہ ہو تو یہ لابی کوئی ایسا کام نہیں ہونے دیتی جو اسرائیلی مفادات کے خلاف جائے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا نے نہ صرف غزہ جنگ میں اسرائیل کی کھل کر مدد کی بلکہ اربوں ڈالرز اور ہتھیار بھی دئیے۔

امریکا چاہتا ہے کہ اسرائیل رفح کا آپریشن نہ کرے کیونکہ اگر یہ آپریشن ہوا تو ہزاروں بے گناہ مزید فلسطینیوں کی خدانخواستہ جانوں کا ضیاع ہوسکتا ہے۔

جیسا کہ خدشہ تھا عین اس کے مطابق اسرائیل نے حماس کی جناب سے معاہدے کو ماننے کے باوجود آج رفح پر چڑھائی کردی ہے۔

قتل و غارت کا یہ سلسلہ امن کی آس اور امید کو توڑتے ہوئے رفح پر حملے کے ساتھ مزید آگے بڑھتا دکھائی رہا ہے اور اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ جوبائیڈن کیلئے آئندہ صدارتی انتخابات میں اپنی جیت کی راہ ہموار کرنا مشکل ہوجائے گا۔

دوسری جانب اسرائیل کی صیہونی لابی پوری طرح فعال ہے۔ کینیڈا میں یہودی تنظیم نے پریس کانفرنس کی اور 2023 میں ایسے واقعات کی فہرست گنوائی جن کو اینٹی سیمٹیزم سے جوڑا جاسکتا ہے۔

بظاہر اینٹی سیمٹزم کا مقصد یہود مخالف سرگرمیوں، بیانات اور تعصب کو روکنا ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ اینٹی سیمٹزم اس حد تک امریکیوں اور کینیڈینز کے ذہنوں پر سوار ہوچکا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی بات کو یہود مخالفت سے جوڑ دیتے ہیں اور آپ پر پابندیاں عائد کرنے کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔

گزشتہ روز یہودی تنطیم بنے برتھ نے پریس کانفرنس کے دوران سال 2023 کے اینٹی سیمٹزم پر مبنی واقعات کی آڈٹ رپورت جاری کی جس میں یکم جنوری سے لے کر 31 دسمبر تک اوسطاً 15واقعات روز ہونے کی شکایت کی گئی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی تنظیم عوامی سرگرمیوں پر کس طرح نظر رکھتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ سال 2022 کے مقابلے میں سال 2023ء میں یہود مخالف واقعات 109اعشاریہ 5 فیصد زائد رپورٹ ہوئے۔ کینیڈا بھر میں آن لائن یہود مخالف واقعات ایک سال کے دوران 135اعشاریہ 7 فیصد بڑھے اور خاص طور پر تشدد آمیز واقعات میں 208 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔

یہاں ایک اہم سوال یہ بنتا ہے کہ یہودی تنظیم یہ تو دیکھ رہی ہے کہ یہود مخالف واقعات بڑھ رہے ہیں اور سیمیٹزم یعنی یہودیوں کی مذہب کی بنیاد پر مخالفت بند ہونی چاہئے لیکن خود اینٹی سیمٹیزم کی تعریف کا دائرہ وسیع کرنے اور فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضے اور اب غزہ پر حملے کو ناجائز قرار نہیں دیتی۔

اقوامِ متحدہ کا بھی ماننا ہے اور مغربی ممالک بھی اقوامِ متحدہ کی رکنیت کی بدولت یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ مقبوضہ فلسطین دراصل عربوں کی سرزمین ہے جس پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کیا اور گزشتہ برس سے غزہ پر شروع ہونے والے حملوں نے تو ہر حد پار کردی ہے، متاثرہ علاقے کو کھنڈر بنا دیا گیا اور اب رفح پر بھی چڑھائی کردی ہے۔

بین الاقوامی مبصرین یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ غزہ اب رہائش کے قابل نہیں رہا اور 80 فیصد سے زائد آبادی اپنے گھروں سے محروم ہے، بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں سمیت ہر عام فلسطینی کو نشانہ بنایا گیا اور عالمی جنگی قوانین کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ عالمی برادری کا ضمیر کب جاگے گا؟

اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے ممالک جو اب اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کے مطالبات کرتے نظر آتے ہیں، ان کا ضمیر 35 ہزار 232 سے زائد شہادتوں کے بعد بھی جاگ گیا ہے یا ابھی کچھ نیند باقی ہے؟ کیا ہماری آنکھ اس وقت کھلے گی جب اسرائیل عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں مزید افراد کو شہید کردے گا؟

کیونکہ بقول علامہ اقبال:
فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

Related Posts