زحل کے چاند ٹائٹن پرنظر آنے والے داغ آبی ذخائر کا پتہ دیتے ہیں۔ماہرینِ فلکیات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

زحل کے چاند ٹائٹن پرنظر آنے والے داغ آبی ذخائر کا پتہ دیتے ہیں۔ماہرینِ فلکیات
زحل کے چاند ٹائٹن پرنظر آنے والے داغ آبی ذخائر کا پتہ دیتے ہیں۔ماہرینِ فلکیات

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ماہرینِ فلکیات نے کہا ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کے اہم سیارے زحل کے چاند ٹائٹن پر دکھائی دینے والے داغ کسی قدیم جھیل یا آبی ذخائر کا پتہ دیتے ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی دور میں ٹائٹن پر پانی ضرور موجود تھا۔

تفصیلات کے مطابق ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ ٹائٹن نامی زحل کے چاند پر موجود داغ دراصل وہ خشک تہیں دکھائ دیتی ہیں جو عموماً کسی جھیل یا سمندر کے خشک ہوجانے کے بعد دکھائی دیتی ہیں، جس سے ماہرین کو ایک 20 سالہ مسئلہ حل ہوتا نظر آرہا ہے۔ 

سالہا سال سے ماہرینِ فلکیات ٹائٹن کے چاند پر موجود داغ کا تجزیہ کرنے اور اس پر مختلف مفروضے قائم کرنے میں مصروف تھے جن کی بنیاد ہبل نامی دوربین سے لی گئی تصاویر پر رکھی گئی۔ سن 2000ء میں ماہرینِ فلکیات نے ایک ریڈیو ٹیلی اسکوپ کی مدد سے ٹائٹن کی سطح سے آنے والے ریڈیو سگنلز وصول کیے۔

موصول ہونے والے سگنلز کو اسپیکولر عکس کا نام دیا گیا جو عام طور پر اُس وقت سامنے آتے ہیں جب برقناطیسی لہریں کسی چپٹی سطح سے اسی زاویے سے واپس لوٹتی ہیں جس زاویے سے اس سطح تک گئی ہوں جس کی تشبیہ کسی آئینے سے دی جاسکتی ہے۔

ماہرینِ فلکیات کے مطابق ٹائٹن کی سطح پر زمانۂ قدیم میں بڑے بڑے پانی کے ذخائر موجود تھے جبکہ سن 2004ء میں جب امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے (ناسا) کا خلائی جہاز زحل تک پہنچا ، اس نے ماہرینِ فلکیات کیلئے مختلف تصاویر جاری کی تھیں جن سے ٹائٹن پر پانی کی موجودگی پر ہونے والی بحث تقویت پکڑ گئی تھی۔ 

یاد رہے کہ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا زندگی کی تلاش کا مشن جاری ہے جس کے دوران ”سویرنس“ نامی خلائی مشن کو رواں سال جولائی میں مریخ کے لیے روانہ کیا جائے گا۔

زمین کا ہمسایہ مریخ ہمارے سورج سے 14 کروڑ 20 لاکھ کلومیٹر دور ہے جس کے باعث وہاں سورج کی روشنی سے پیدا ہونے والی دھوپ اتنی شدید نہیں ہوتی جتنی زمین پر ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  ناسا کا خلائی مشن  جولائی میں مریخ کیلئے روانہ ہوگا

Related Posts