سکھ رہنما کا قتل۔۔۔کینیڈا اور بھارت کے نہایت کشیدہ تعلقات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حال ہی میں بھارت میں ہونے والے جی 20 اجلاس کے حوالے سے مختلف خبریں اخبارات کی زینت بنیں تاہم جی 20 اجلاس کے اختتام کے بعد کینیڈین وزیر اعظم نے اپنی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ کہا کہ بھارت سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت ملوث ہے جس پر ہم تحقیقات کریں گے اور بھارتی سفارتکار کو ملک بدر کیا گیا ہے جو یہاں بھارتی ایجنسی ”را“ کے سربراہ تھے۔

کینیڈا نے بھارت پر دو الزامات عائد کیے، اول تو یہ کہ بھارت ہردیپ سنگھ نجر کے قتل یا ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے جبکہ دوم یہ کہ بھارتی ایجنسی ”را“ کے سربراہ کا اس قتل سے براہِ راست تعلق ہے جس کے نتیجے میں انہیں ملک بدر کیا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ دیگر ممالک کے اقتدارِ اعلیٰ سمیت دیگر حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں کس حد تک ملوث ہے۔

بھارت اور کینیڈا کے سفارتی تعلقات اس وقت کشیدگی کا شکار ہیں کیونکہ بھارت نے بھی کینیڈین سفارتکار کو جوابی حملہ کرتے ہوئے ملک بدر کردیا ہے جبکہ بھارتی میڈیا پہلے ہی کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا تاہم کینیڈین وزیر اعظم نے پہلے تو جی 20 اجلاس میں ہلکے پھلکے انداز میں سکھ رہنما کے قتل کا معاملہ اٹھانے کی کوشش کی جسے بھارتی میڈیا نے آگے نہیں آنے دیا جس کے بعد پارلیمنٹ سے خطاب سامنے آیا۔

ویانا کنونشن 1961 کے مطابق کینیڈین وزیر اعظم کا خطاب بالکل اصولی ہے جس کے تحت انہوں نے کینیڈین شہری کے قتل کی بات اٹھائی اور کہا کہ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ بھارت کس کس دیگر طریقے سے کینیڈا میں مداخلت میں ملوث ہے جبکہ دوسری جانب بھارت کا یہ ماننا ہے کہ کینیڈا ”خالصتانی دہشت گردوں“ کو پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے ۔ دونوں کے مابین یہ بیان بازی محاذ آرائی کی ایک نئی سطح کی نشاندہی کرتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر2649 کے تحت خالصتان تحریک سمیت ایسی کوئی بھی تحریک جو آزادی کا مطالبہ کرتی ہو، اسے عالمی قوانین کے تحت معاونت حاصل ہے، سو اس ضمن میں کینیڈا کا مؤقف بھارت پر فوقیت رکھتا ہے جسے امریکا، آسٹریلیا، برطانیہ اور نیوزی لینڈ سمیت دیگر مغربی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔ اس معاملے میں مودی حکومت کی غیر سنجیدگی اور ہٹ دھرمی بھارت کیلئے سنگین مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔

ہردیپ سنگھ نجر کو رواں برس گردوارے کے سامنے کار پارکنگ میں 2 نقاب پوش افراد نے گولی مار کر قتل کردیا جس کے بعد آر ایم پی (رائل ماؤنٹڈ پولیس) فعال ہوگئی اور انہوں نے کینیڈین شہری اور سکھ رہنما کے قتل پر تمام تر تحقیقات کے شواہد کینیڈین حکومت کے حوالے کردئیے جو اپنے ساتھ لے کر کینیڈین وزیر اعظم اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے جی 20 کے دوران ملے اور ان کا ذکر کیا جس پر نریندر مودی کی جانب سے روایتی ہٹ دھرمی سامنے آئی۔

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ کینیڈا میں کم و بیش ساڑھے 8لاکھ نفوس پر مشتمل سکھ برادری آباد ہے جو کینیڈا کے سیاسی منظر نامے پر خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور وہاں ایک بہت بڑی سیاسی جماعت نیو نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ جگدیپ سنگھ وزیر اعظم کے عہدے کیلئے بھی الیکشن لڑ چکے ہیں اور موجودہ حکومت کے اتحادی کی حیثیت سے آج بھی فعال ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کینیڈا میں کسی سکھ پر ہاتھ ڈالنا کسی کینیڈین شہری پر ہاتھ ڈالنے سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔

بھارت کی نریندر مودی حکومت یا اس کی خفیہ ایجنسی کی جانب سے کینیڈا کے کسی شہری کو کینیڈا کی سرزمین پر قتل کردینا اوّل تو ملٹی لیٹرل ٹریٹی اور دوم انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جبکہ کینیڈا پہلے ہی یہ معاملہ نرم الفاظ میں بھارتی وزیر اعظم کے سامنے رکھنے کے بعد تحقیقات اور قانونی کارروائی جیسے سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوا ہے۔ ویانا کنونشن کی پاسداری نہ کرنے پر بھارت کے خلاف سخت کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔

پہلے پہل بھارت نے پاکستان اور نیپال سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت ریاستی دہشت گردی کا حصہ بنایا تاہم کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی مودی حکومت کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ بھارت کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے بلکہ اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں۔ یہ معاملہ عالمی عدالتِ انصاف اور سلامتی کونسل میں بھی جاسکتا ہے، حتیٰ کہ اس پر بھارت کے خلاف قرارداد بھی منظور ہوسکتی ہے۔

اگر سلامتی کونسل میں بھارت کے حق میں ویٹو پاور استعمال کرنے کا مرحلہ آیا تو امریکا بھی اس پر آنکھیں چراسکتا ہے کیونکہ مغربی ممالک اپنی حدود میں مداخلت کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں جن کا ساتھ دینا امریکا کیلئے بھارت سے زیادہ ضروری ہے۔

Related Posts