سانحہ سیالکوٹ ریاست کیلئے نیا امتحان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Sialkot tragedy new challenge for state

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے دیگر کئی مسائل کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کے مسئلے سے نبردآزما ہے، ملک میں ہر چند ماہ یا ہفتوں کے بعد کہیں نہ کہیں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتا ہے جس سے ملکی عزت و وقار داؤ پر لگ جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ روز سیالکوٹ میں پیش آیا جہاں مشتعل ہجوم نے سری لنکن شہری کو مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لگاکر قتل کردیا، اس واقعہ نے جہاں اداروں کی ناکامی پر سوال اٹھایا وہیں عالمی سطح پر پاکستان کو مزید بدنامی کی طرف دھکیل دیا ہے۔

سانحہ سیالکوٹ
جمعہ کے روز سیالکوٹ میں راجکوانڈسٹری کےجنرل منیجرپروڈکشن پریانتھا کماراکوتوہین مذہب کا الزام لگاکر قتل کردیا گیا ۔مشتعل ہجوم نے پہلے مقتول پر بہیمانہ تشدد کیا اور ڈنڈے مار مار کرپریانتھا کمارا کو قتل کیا اور اس کے بعد اس کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹتے رہے اور بعد میں اس کی لاش کو سڑک پر آگ لگادی گئی ۔مشتعل افراد کا دعویٰ تھا کہ مقتول نے مبینہ طور پر مذہبی جذبات مجروح کیے تھے، مشتعل افراد نے فیکٹری میں توڑ پھوڑ بھی کی۔

پریانتھا کمارا کون تھا
سیالکوٹ میں قتل کیے گئے فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا کاتعلق سری لنکا سے تھا اور اس کی فیملی میں اہلیہ اور دو بچے شامل ہیں۔پریانتھا کمارا تقریباً 10 سال سے سیالکوٹ کی فیکٹری میں کام کررہے تھے اوران کے اہلِ خانہ ایک سال پہلے تک ان کے ساتھ سیالکوٹ ہی میں رہائش پذیر تھے تاہم ایک سال قبل بیوی اور بچے پاکستان سے سری لنکا چلے گئے تھے۔

ابتدائی رپورٹ
سری لنکن فیکٹری منیجر کے بہیمانہ قتل کے حوالے سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو ارسال کی گئی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ورکرز نے کام چوری اور ڈسپلن کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کا بدلہ لینے کیلئے پریانتھا کماراکو نشانہ بنایا۔

پولیس رپورٹ کے مطابق بادی النظر میں فیکٹری ملازمین نے اسٹیکر کا بہانہ بناکر منیجر پر حملہ کیا کیونکہ حملہ کرنے والے ملزمان کو فیکٹری میں کام چوری اور ڈسپلن کی خلاف ورزی پر فارغ بھی کیا گیا تھا جس پر بدلہ لینے کیلئے پرانتھا کمارا پر حملہ کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے وفود نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا اس لئے مالک نے صفائی ستھرائی کی ہدایت کی تھی اور مشین پر لگے اسٹیکر بھی ہٹانے کا کہا تھا جبکہ مقتول نے ایک مشین پر اسٹیکر نہ اتارنے پر خود پھاڑ دیا تھا جبکہ گرفتار ملزمان کادعویٰ ہے کہ اسٹیکر پر مذہبی تحریر تھی۔

پولیس کی خاموشی
سانحہ سیالکوٹ میں ایک افسوسناک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ پولیس موقع پر پہنچنے کے باوجود منیجر کے قتل کو روکنے میں ناکام رہی۔سیالکوٹ پولیس اہلکار جب جائے وقوعہ پر پہنچے تو ہجوم بے قابو ہوچکا تھا جسکی وجہ سے مزید نفری طلب کی گئی تاہم اس وقت تک پریانتھاکمارا قتل ہوچکا تھا اور اس کی لاش جلائی جاچکی تھی۔

خاموش تماشائی بنے رہنے کا جواز پولیس نے یہ گھڑا کہ ہجوم بے قابو تھا، لوگ بہت تھے ، اور مشتعل تھے۔ریسکیو 1122 والے بھی کچھ نہ کرسکے اور کہا کہ ہم وردی میں تھے ممکن ہی نہ تھا کہ مشتعل لوگوں میں گھس کر پٹنے والے شخص کو بچانے کے لیے کوئی مداخلت کرسکتے۔

مذہب کے نام پر تشدد 
پاکستان میں مبینہ طور پر توہین مذہب کے نام پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی لاتعداد واقعات پیش آچکے ہیں تاہم میڈیا کی زینت بننے والے چند واقعات کو دیکھا جائے تواپریل 2017 میں خیبر پختونخوا میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کو اسی یونیورسٹی کے طلبہ نے توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم کی صورت میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ اس کی جان چلی گئی، تحقیقات میں توہین مذہب کے الزامات جھوٹے نکلے۔

2014 میں پنجاب میں مشتعل ہجوم نے ایک مسیحی جوڑے شہزاد اور شمع کو توہین مذہب کے الزام میں تشدد کرکے جان سے مار ڈالا اور سفاکی سے ان کی لاش کو آگ لگا دی۔

مارچ 2013 میں ہزار وں افراد پر مشتمل مشتعل ہجوم نے بادامی باغ لاہور کی جوزف کالونی میں مسیحی برادری کے 150 گھروں، 18 دکانوں اور دو گرجا گھروں کو آگ لگا دی۔ واقعہ ایک مسیحی شہری پر توہین مذہب کے الزام کے بعد پیش آیا لیکن تحقیقات پر یہ واقعہ ذاتی رنجش کا نتیجہ نکلا۔

2012 میں بہاولپور میں ذہنی مسائل کے شکار ایک شخص کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں پولیس اسٹیشن سے نکال کر سرعام آگ لگا دی۔

نومبر 2020 میں خوشاب میں بینک منیجر کو گارڈ نے توہین مذہب کا الزام لگا کر گولی ماردی جبکہ بعد میں ذاتی رنجش ثابت ہوگئی۔

نومبر 2021 میں مشتعل ہجوم نے چارسدہ پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی۔ تھانے میں ایک شخص موجود تھا جس پر توہین مذہب کا الزام تھا اور مشتعل ہجوم کا مطالبہ تھا کہ پولیس تحویل میں موجود اس شخص کو ان کے حوالے کیا جائے۔

اگست 2020 میں رحیم یار خان میں مشتعل ہجوم نے ایک مندر پر حملہ کردیا اور املاک کو نقصان پہنچایا۔

واقعہ میں لوگوں کی بے حسی
پاکستان میں توہین مذہب کے نام پر تشدد کے واقعات اور نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ پرتشدد واقعات کو روکنے کے بجائے اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈال کر ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور گزشتہ روز بھی ایسا ہی ہوا کہ جب لوگ سری لنکن شہری کو تشدد کا نشانہ بنارہے تھے اور اس کی لاش کو جلایا جارہا تھا تو موقع پر موجود لوگ سیلفیاں بناتے رہے جبکہ کچھ افراد لاش پر بھی ڈنڈے برساتے رہے ، باقی ہجوم خاموش تماشائی بنا رہا۔

عالمی قوانین اوراثرات
پاکستان کے سابق سفیر اور بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر جمیل احمد خان کا کہنا ہے کہ عالمی قوانین کے تحت انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سانحہ سیالکوٹ جیسے دل جلانے والے واقعات کے بہت سخت نتائج سامنے آتے ہیں ۔

پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات اور تشخص کونقصان پہنچتا ہے اور عالمی فورمز پر قرض ، ایف اے ٹی ایف اور جنرل اسمبلی یا سیکورٹی کونسل میں اس طرح کے واقعات پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جائے ہیں ۔پاکستان کے دنیا کے بہت کم ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جن میں سے سری لنکا ایک ہے تاہم اس واقعہ کے بعد دوطرفہ تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر جمیل احمد خان کا کہنا ہے کہ اگر خدانخواستہ توہین مذہب کا معاملہ تھا تو قانون کی مدد لینی چاہیے تھی ہجوم کو فیصلہ کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔

علماء دین
سانحہ سیالکوٹ پرعلماء دین بھی مذمت کے بیان جاری کئے ہیں، معروف عالم دین و مبلغ مولانا طارق جمیل نے کہا ہے کہ سیالکوٹ میں ناموس رسالت کی آڑ میں واقعہ افسوسناک ہے الزام کی بنیاد پر قانون کو ہاتھ میں لینا اسلامی تعلیمات کیخلاف ہے۔وزیرمذہبی امورنورالحق قادری ،مفتی منیب الرحمان، مفتی تقی عثمانی ، سراج الحق، مولانا فضل الرحمان اور پاکستان کے دیگر علماء نے واقعہ کوغیر اسلامی قرار دیتے ہوئے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ۔

تحریک لبیک پاکستان
اس واقعہ میں تحریک لبیک پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی تھی تاہم ٹی ایل پی کہا ہے کہ سیالکوٹ واقعہ افسوس ناک ہے، اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ترجمان ٹی ایل پی نے کہا کہ سیالکوٹ واقعے کو تحریک لبیک پاکستان سے منسوب کرنا بھی افسوس ناک ہے، سیالکوٹ واقعہ کا پس منظر اور سازش سمیت تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں۔

حکومت اور اپوزیشن
صدر مملکت عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، وزیرداخلہ شیخ رشید، وزیراطلاعات فواد چوہدری، وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری اور اپوزیشن رہنماؤں شہبازشریف، بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، احسن اقبال، پرویز رشید، شیری رحمان، شازیہ مری ودیگر نے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس سانحہ کو پاکستان کی بدنامی کا سبب قرار دیا ہے۔وزیراعظم نے سانحہ سیالکوٹ کو پاکستان کیلئے شرمناک دن قرار دیتے ہوئے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔

اقلیتیں اور ریاست کا امتحان
پاکستان میں اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے مسیحی، ہندو اور سکھ ودیگر رہنماؤں نے بھی سانحہ کی شدید الفاظ میں مذہب کی ہے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔

مسیحی ادارہ نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے چیئرمین ریورنڈ فادر آشرلیاقت کا کہنا ہے کہ سانحہ سیالکوٹ ملک میں پنپنے والی نفرت کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کاقانون کسی شہری کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی کو سزاء دے۔

فادر آشرلیاقت کاکہنا ہے کہ حکومت سانحہ کے ذمہ داران کو سخت سے سخت سزاء دے تاکہ اقلیتوں  میں پایا جانیوالا خوف دور ہو اور مذہب کی آڑ میں بے گناہوں کو نشانہ بنانے والوں کا راستہ روکا جاسکے۔

Related Posts