جوتوں میں شراب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 پاکستانیوں کے حوالے سے ایک مثال مشہور ہے کہ پاکستانی یورپ جاکر شراب بھی پیتے ہیں، نائٹ کلب بھی جاتے ہیں اور گوروں کی تقلید میں ہر کام کرتے ہیں لیکن کھانا حلال مانگتے ہیں۔

آسٹریلیا کی جیت کے بعد پاکستانی عوام ان کی فتح کے جشن کے متعلق اپنی اپنی بساط کے مطابق متوسط اور سخت تنقید میں مصروف ہے جبکہ یہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کا ذاتی فعل ہی کہا جاسکتا ہے جس کا کسی مذہب یا قومیت سے کوئی تعلق نہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ہم وطن مسلمانوں نے تو اس جشن کو مذہب سے جوڑ کر نیا رنگ دے دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شاید آسٹریلوی کھلاڑی مسیحی ہیں ،اس لئے انہوں ایسا کیا ہے تو ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ شوئی کا اسی طرح مسیحیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جیسے عرب مسلمان اونٹ کا پیشاب پی کر پاک یا ہندو گاؤ ماتا کا موت پی کر خود کو پوتر سمجھتے ہیں، اسی طرح مسیحی بھی اگر شراب یا کوئی اور مشروب جوتوں میں ڈال کر پی لیں تو مسیحی مذہب کی تعلیمات کے مطابق کوئی نیک کام نہیں کرتے۔

تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں کے سب سے بڑے فقۂ حنفیہ کے فقہا ء کے نزدیک اونٹ سمیت تمام جانوروں کا پیشاب انسان کے پیشاب کی طرح ناپاک ہے اور اس کا پینا ناجائز ہے، کیوں کہ متعدد صحیح احادیثِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر قبر کا عذاب پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔

مسیحیت کی بات کی جائے تو مَے نوشی کے حوالے سے خدا مسیحیوں کو جو حکم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ “شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اِس سے بد چلنی (یعنی بے حیائی) پیدا ہوتی ہے۔ (افسیوں 5باب 18آیت)۔

بائبل اصل میں شراب نوشی اور اِس کے اثرات کی مذمت کرتی ہے (امثال 23باب 29-35)۔ مسیحیوں کو یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے جسموں کو کبھی کسی بھی چیز کا غلام نہ بننے دیں۔ (1کرنتھیوں 6باب 12آیت؛ 2-پطرس 2باب 19آیت)۔

بہت زیادہ شراب نوشی یقینی طور پر ایک نشے کی لت یعنی بری عادت ہے ۔ کلامِ مقدس مسیحیوں کو ہراُس کام سے منع کرتا ہے جو دوسرے مسیحیوں کے لیےنفرت انگیز ہو یا اُن کے ضمیر کے خلاف اُن کو گناہ کرنے کی ترغیب دے سکےیعنی اُن کے لیے ٹھوکر کاباعث ہو (1کرنتھیوں 8باب 9-13 آیات)۔ اِن اُصولوں کی روشنی میں کسی بھی مسیحی کےلیے یہ کہنا بہت مشکل ہو جائے گا کہ اُسکی طرف سے کی جانے والی مَے نوشی خُدا کے نام کو جلال دینے کا سبب ہو سکتی ہے (1کرنتھیوں 10باب 31آیت)۔

آسٹریلیا میں جوتوں میں مے نوشی پہلی بار ہے نہ آخری مرتبہ کیونکہ یہ ان کا جشن کا انداز ہے جس سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔کسی بھی قوم یا فرقے کے فعل کو مذہب سے جوڑنا کسی طرح مناسب نہیں ہے ، ہمیں کسی بھی چیز پر بات کرنے سے پہلے مکمل تحقیق کرلینی چاہیے۔

اخلاقیات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے کام سے کام رکھیں کیونکہ یہ اقدام کسی صورت قابل تقلید نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے بہت سے لوگ گوروں کا ہر کام قابل تقلید اور بعض اوقات باعث فخر بھی سمجھ لیتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جاوید میانداد شراب کی بوتل انعام میں ملنے کے بعد خوشی سے لہراتے رہے۔

پاکستان میں آپ کسی بھی شراب خانے چلے جائیں یا کسی وائن شاپ کے پاس چند لمحے کھڑے ہوکر دیکھیں تو آپ کو اکا دکا مسیحی یا ہندو ملیں گے جبکہ اقوام کے لوگ جوق در جوق میخانوں کا رخ کرتے دکھائی دینگے۔ شراب مسیحیت میں حرام ہے اور پاکستان میں شراب پر پابندی بھی مسیحیوں نے لگوائی تھی جسے مومنین کے اصرار پر ختم کرنا پڑا۔

ماضی میں یورپ میں نہ نہانے کا رواج تھا اور آج بھی کئی مشہورشخصیات نہانا پسند نہیں کرتیں۔بس جسم پر گیلا کپڑا مارا اور چل دیئے لیکن ہم نے نہانہا کر کونسا دنیا فتح کرلی ہے۔ آسٹریلوی ٹیم نے جیت کی خوشی میں جیسے بھی جشن منایا ہو اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں بنتا۔

آسٹریلوی جوتوں میں شراب پئیں یا بدو اونٹ کا پیشاب، دنیا میں کئی جگہوں پر لوگ فطری لباس میں رہنا پسند کرتے ہیں اور کہیں مکمل پردے کا رواج ہے، ان سب چیزوں کا تعلق ثقافت سے ہے، مذہب سے نہیں۔

Related Posts