بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یوتھوپیا کے وزیراعظم کے معاون خصوصی کا ایک بیان نظر سے گزرا کہ پاکستان میں موٹرسائیکل بنانے والی کمپنی اٹلس ہونڈا نے نومبر 2021 میں کل 128503 موٹرسائیکلز فروخت کیں جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔

یہ بیان پڑھ کر کچھ عجیب سی کیفیت ہوگئی بقول شاعر حیراں ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں ۔۔۔

شہباز گل صاحب وزیراعظم کے ان نو رتنوں میں شمار کئے جاتے ہیں جنہیں وہ بالخصوص اس مغرب سے درآمد کرکے لائے ہیں جسے وزیراعظم سے بہتر کوئی نہیں جانتا لہٰذا وزیراعظم کے ذوق، علم، جغرافیہ، ریاضی اور “مواشیات” کی طرح ان کا معاونین خصوصی و مشیران کا انتخاب بھی لاجواب ہے۔

دیگ میں سے ایک چاول چکھنے والے محاورے کے مصداق اب جناب شہباز گل صاحب کے اس بیان ہی کو لے لیجئے، مملکت خداداد کے وزیراعظم کے ایک درآمد شدہ معاون خصوصی، جن کی مزید خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ایک عالمی معیار کی امریکی یونیورسٹی سے عالم فاضل کی سند بھی ہے اور ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں، اس پر ان کا انتہائی مکروہ اور تحقیر آمیز لہجہ اور دس گز لمبی غیر پارلیمانی زبان ۔۔۔ یعنی کریلا وہ بھی نیم چڑھا ۔۔۔

زیر تبصرہ بیان میں موصوف ایک نجی کمپنی کی بنائی موٹر سائیکلز کی فروخت پر شادیانے بجا رہے ہیں، گویا یہ ان کی حکومت کا کوئی کارنامہ ہو، اور اگر بات محض اتنی ہوتی تو بھی قابل درگزر ہوتی کہ چلو حکومت نے سازگار کاروباری ماحول فراہم کیا شاید اس بات کا کریڈٹ لے رہے ہوں مگر ان کا یہ بیان زمینی حقائق اور منڈی میں طلب و رسد کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ آیئے اس پر بات کرتے ہیں کہ موٹر سائیکلز کی فروخت میں یہ اضافہ کیوں کر بغلیں بجانے کا نہیں بلکہ نوحہ و مرثیہ خوانی کا متقاضی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیں کہ پاکستان میں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بنائی نہیں بلکہ جوڑی یا اسمبل کی جاتی ہیں، زیادہ تر انجن اور پرزہ جات درآمد ہوتے ہیں، اور اس حکومت نے درآمدات کی حوصلہ شکنی اور اسے مشکل ترین بنانے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی، اگر موٹی موٹی بات کریں تو کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکسز میں اضافے اور روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ نے درآمدی مال کئی گنا مہنگا کردیا ہے۔

جو موٹرسائیکل آج سے تین سال پہلے 80 ہزار روپے کی تھی آج ایک لاکھ پچاس ہزار کی ہے، اس قدر گرانی کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں موٹر سائیکلز کی فروخت سمجھ سے بالاتر لگتی ہے، حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ مہنگائی تو ہوئی ہے، مگر آمدن میں اضافہ بھی ہوا ہے، نتیجتاً قوت خرید بڑھی ہے، یہی وجہ ہے کہ فروخت میں اضافہ ہوا، مگر ایسا کہنا بھی خلاف واقعہ ہے۔

اصل وجوہات جاننے سے پہلے یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ موٹر سائیکل ہو یا گاڑی دونوں پیٹرول سے چلتی ہیں اور پیٹرول پاکستان کے درآمدی واجبات کا سب سے بڑا سبب ہے، ہر سال پاکستان اربوں ڈالر کا پیٹرول درآمد کرتا ہے جس پر وہ قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے جو پاکستان میں کمیاب ہے، جس کے لئے ہمارے غیور وزیراعظم کو کبھی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور پیرس کنسورشیم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے تو کبھی چین، عرب امارات اور سعودی عرب کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑنا پڑتا ہے، اس لئے موٹرسائیکل یا گاڑیوں کی فروخت کوئی نیک شگون یا قابل فخر کارنامہ نہیں کہ ایک طرف تو انجن اور پرزے درآمد ہوتے ہیں تو دوسری طرف درآمدی پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال بڑھ رہا ہے، اگر یہ نکتہ سمجھ آگیا تو آگے چلتے ہیں۔

قبل و مابعد کورونا دنیا میں حکومتیں ایک طرف تو اس بات کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں کہ کس طرح خودکفالت حاصل کی جائے اور درآمدات پر انحصار کم ہو تو دوسری طرف فاسل فیول یعنی پیٹرول اور گیس کے بجائے قابل تجدید یعنی رینووایبل انرجی جیسے کہ سولر یا شمسی توانائی وغیرہ پر منتقل ہوا جائے، پھر ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کو لے کر عالمگیر کانفرنسز میں ہر ملک نے اس عہد کا اعادہ کیا ہے کہ دھوئیں اور گرمی پیدا کرنے والے آلات اور مشینری کا استعمال ترک کیا جائے گا۔

گاڑیاں اور موٹرسائیکلز ماحولیاتی آلودگی، ماحول دشمن گیسز اور درجہ حرارت میں اضافہ کا بڑا سبب ہیں، اس لئے جدید شہروں میں ٹریفک کو کم از کم کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں، ان اقدامات میں مواصلاتی نظام کی بہتری، آن لائن کام کرنے کے رجحان کو فروغ دینا اور ماس ٹرانزٹ یا پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر کرنا شامل ہے، تاکہ سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کرکے مطلوبہ اہداف حاصل کئے جاسکیں۔

مگر ہماری حکومت کی تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے، یہاں اس بات پر شادیانے بج رہے ہیں کہ لوگ موٹرسائیکل زیادہ خرید رہے ہیں، جس سے پیٹرول کا استعمال بڑھے گا، سڑکوں پر ٹریفک کا اژدہام ہوگا، ماحولیاتی آلودگی بڑھے گی اور جان لیوا حادثات میں اضافہ ہوگا۔

اس لئے یہ اتنے بڑے پیمانے پر موٹرسائیکل سائیکلوں کی فروخت کے اسباب سمجھنا ضروری ہے، جن میں سر فہرست پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کرنے میں حکومت کی ناکامی ہے، پبلک ٹرانسپورٹ نہ صرف شہریوں کو سستی ترین سواری فراہم کرتی ہے،بلکہ پیٹرول کی بچت، ٹریفک جام اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی کرتی ہے، دوسری وجہ ہر سال حادثات میں لاکھوں موٹر سائیکلز کا ناکارہ ہوجانا ہے۔

غیرمحفوط موٹرسائیکل آسانی سے حادثات کا شکار ہوتی ہے اور نئی خریدنی پڑتی ہے۔ پاکستان کی سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی غالب اکثریت میں موٹر سائیکلز ملوث ہوتی ہیں، اور موٹر سائیکل حادثہ گاڑی کے مقابلے زیادہ مہلک ہوتا ہے، حادثات میں مرنے والوں کی اکثریت موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے، اپنی جان سب کو پیاری ہے، کسی کو شوق نہیں کی وہ موت کی سواری کرے، مگر پھر بھی دو افراد کے لئے بنی موٹر سائیکل پر تین، چار،پانج یا زیادہ بھی سواری کرتے نظر آتے ہیں جس کی بنیادی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی، مہنگائی کے سبب گاڑی اور پیٹرول قوت خرید سے باہر ہونا اور سڑکوں پر ٹریفک جام شامل ہیں۔

تیسری وجہ بڑے پیمانے پر گاڑیوں اور موٹرسائیکلز کی چوری ہے، جرائم کی شرح میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ تین سال پہلے سالانہ گیارہ ہزار گاڑیاں اور ایک لاکھ کے قریب موٹر سائیکلز چوری ہورہی تھیں، تبدیلی حکومت کے تین سال بعد یہ تعداد دگنا سے بھی زیادہ یعنی 25 ہزار گاڑیاں اور دو لاکھ موٹر سائیکلز تک جا پہنچی ہے، ظاہر ہے اگر دو لاکھ موٹر سائیکل سالانہ چوری ہوں گے تو دو لاکھ نئے موٹر سائیکلز کی خرید و فروخت بھی ہوگی۔ اتنی بڑی تعداد میں چوری کا بنیادی سبب بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی، غربت اور امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال ہے۔ اور یہ سب حکومت کی نااہلی اور ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

‏چوتھی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے، اب گاڑی خریدنا، گاڑی میں پیٹرول بھروانا، ٹیکسی رکشا پر سفر کرنا متوسط طبقہ کی پہنچ سے باہر ہوتا جارہا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ ہے نہیں، مجبورا موٹرسائیکل خریدنی پڑ رہی ہے، اس لئے موٹر سائیکل فروخت میں اضافہ کارنامہ یا خوش خبری نہیں، ناکامی، مجبوری اور شرمندگی ہے۔

اس لئے ہمارا حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ سرمایہ داروں کی چاندی کروانے اور اس پر دھمال ڈالنے کے بجائے عوام کو مناسب اور بروقت پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی یقینی بنائے، بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ کے منصوبے بنائے، تاکہ سڑکوں پر دباؤ، ٹریفک جام، ماحولیاتی آلودگی، نایاب زرمبادلہ کے غیر ضروری انخلاء اور جان لیوا حادثات میں قیمتی جانوں کے زیاں سے بچا سکے۔

امن و امان کی صورت حال بہتر کی جائے، شہریوں کے جان و مال کو تحفظ دیا جائے، اور اپنی نااہلی اور ناکامی کو چھپانے کے لئے سیاق و سباق سے ہٹ کر نجی شعبے میں کسی ایک کمپنی یا سیکٹر کی آمدن میں اضافے پر ڈھول پیٹنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود، ملک کی ترقی، غربت اور مہنگائی میں کمی کے لئے اپنے اقدامات اور کارناموں کی تفصیل بتائے۔

جاتے جاتے امریکی ڈگری یافتہ مشیر صاحب سے سوال ہے، برطانیہ، فرانس، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، عرب امارات، سعودیہ اور ایران میں ماہانہ کتنی موٹر سائیکل بکتی ہیں؟ امریکہ، روس، کینیڈا، ہالینڈ، آئس لینڈ میں روزانہ کتنے لوگ گھر سے دفتر موٹر سائیکل پر جاتے ہیں؟ ،جواب مل جائے تو آگاہ ضرور کریں۔

Related Posts