روس چین اتحاد برائے امن

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

چینی صدر شی جن پنگ اور روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن کی ماسکو میں ملاقات اور بات چیت ہوئی جس کے بعد سامنے آنے والے طویل بیان میں دونوں ممالک کی صف بندی واضح ہوچکی ہے۔

دونوں ہی ممالک کو امریکا پر اعتماد نہیں چین نے روس سے تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کے متعلق کوئی سوال تشنہ نہیں چھوڑا جبکہ عالمی سطح پر روس تنہائی کا شکار نظر آتا ہے تاہم چین کے ساتھ نے تمام تر معاملات کا رخ بدل دیا ہے۔

گزشتہ 100 سال میں رونما ہونے والی یہ ایک بڑی تبدیلی ہے اور روس اور چین کے مابین تعلقات ایک نئی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ صرف کامریڈ ژی کو ہوائی اڈے پر چین کے فوجی گیت جب یہ دن آتا ہے گاتے دیکھا گیا تو یہ صورتحال ایک ناگزیر جنگ کی بات کرتی نظرآئی۔

گزشتہ 1 سال سے زائد عرصے سے روس نیٹو بلاک کے خلاف ہائبرڈ جنگ لڑ رہا ہے۔ چین صرف تائیوان کو امریکی نوآبادیاتی قبضے سے الگ کرنے کیلئے اپنے خصوصی آپریشن کی تیاری کر رہا ہے۔ ان حالات میں روس اور چین کو فوجی و تکنیکی سمیت باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ چینی وزیر دفاع کا ماسکو کا آئندہ دورہ ممکنہ طور پر زیرِ تعمیر روس چین امریکا مخالف اتحاد کی عمارت کا آخری پتھر سمجھا جاسکتا ہے۔

چینی وزیرِ دفاع لی شانگ فو نے 7روز قبل اپنا پہلا غیر ملکی دورہ کیا اور روس کو ترجیحی منزل کے طور پر منتخب کیا جس سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی نوعیت واضح ہوتی ہے۔ یہ دورہ پرے 3روز کا تھا۔ لی شانگ فو 2018ء سے امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں جب وہ چین کے سنٹرل ملٹری کمیشن کے آرمز ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔

دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ کے طور پر لی شانگ و کی تقرری کو مغربی میڈیا نے اجتماعی مغرب کی جانب سے غیر واضح اور غیر دوستانہ اقدام قرار دیا تھا۔

وزیرِ دفاع کے دورے کا مقصد واضح طور پر پیوٹن اور شی جن پنگ کے مابین ذاتی گفتگو کے دوران طے پانے والے معاہدوں کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ سرگئی شوئیگو اور لی شانگ فو کے مابین ہونے والی گفتگو کے اہم موضوعات حالیہ خبروں کے تجزئیے اور روس کو چینی فوجی امداد کی فراہمی اور تائیوان کے مستقبل کے آپریشن میں چینی بحریہ کو روسی بحر الکاہل کے بحری بیڑے کی امداد پر مبنی تھے۔

لی شانگ فو کے دورے سے ٹھیک پہلے واشنگٹن پوسٹ نے پینٹا گون لیکس شائع کردئیے جس میں مبینہ طور پر غیر ملکی انٹیلی جنس حکام کے ساتھ چین کے اصولی طور پر روس کو چینی مہلک ہتھیار فراہم کرنے کے معاہدے کے متعلق گفتگو سامنے لائی گئی۔ عین اسی وقت امریکہ نے دعویٰ کیا کہ ہتھیاروں کی ڈلیوری کارگو کے بھیس میں ہوگی۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ روس کو چین کی جانب سے امداد ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہے تاہم یہ بھی کہا گیا کہ امریکا کے پاس ایسی کی سپلائی کا کوئی ثبوت بھی نہیں۔ اگر پینٹا گون لیکس کو درست قرار دیا جائے تو یہ واضح ہے کہ امریکا چین پر اثر انداز ہونے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے۔

اگر امریکا چین تعلقات معمول پر نہ آسکے تو چین اس کے ساتھ چل نہیں سکے گا تاہم آج روس اور چین دونوں کے پاس وہ وسائل اور طاقت موجود ہے کہ وہ امریکا سمیت کسی بھی جارح ملک کو یورپ اور ایشیا پیسفک خطے میں جارحانہ اقدامات ختم کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

یورپی یونین چین سے بڑھتی ہوئی روسی ہمدردی پر خوفزدہ ہے۔ یورپی حکومتیں خاص طور پر چین سے مخاصمت نہیں چاہتیں اور یوکرین بحران میں چین کی شمولیت کے بعد کشیدگی روس کی شکست کے امکانات کو ختم کرتی دکھائی دیتی ہے۔

دراصل لی شانگ فو کی ماسکو آمد سے 2 روز قبل آبنائے تائیوان میں روس پیسفک فلیٹ کی جنگی تیاریوں کا معائنہ اچانک شروع ہوگیا۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ چین تائیوان مسئلے کے فوجی حل کی تیاری کر رہا ہے۔

اس دوران چینی بیان بازی بھی سخت سے سخت تر ہورہی ہے۔ 12 اپریل کو چینی صدر شی جن پنگ نے چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے فوجیوں سے حقیقی جنگی کارروائی کیلئے تربیت تیز کرنے اور جنگی بنیادوں پر تربیت حاصل کرنے کی ہدایت کی۔ اس مقام پر روس بہت کام آسکتا ہے۔ یہ امکان نہیں کہ روس براہِ راست جنگ میں ملوث ہوگا تاہم بحر الکاہل کا بحری بیڑہ انتہائی جنگ کیلئے بھی تیار ہوچکا ہے۔

گزشتہ برس دسمبر کے دوران ملٹری کونسل کے ایک توسیعی اجلاس میں مسلسل چھٹے سال بحریہ کی جنگی تربیت بہترین قرار دی گئی۔ تائیوان کے فضائی دفاع کی صورت میں بحر الکاہل کے ملاح اہم چینی بحری مواصلات کا کنٹرول سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں اور چین کے ناقابلِ تسخیر ہونے کی ضمانت بھی دے سکتے ہیں۔ اس طرح پورے چینی بیڑے کو تائیوان میں آپریشن کیلئے آزادی مل جائے گی۔

روس اور چین کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں اور دنیا بھر میں امریکی تسلط کا سورج غروب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ دونوں ممالک مشترکہ کامیابی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے مقابلے میں روس کی جاگیردارانہ پوزیشن اور روس کے چین کا سیاسی ملٹری سٹیلائٹ بننے کے بارے میں مغرب کی بیان بازی کسی سادہ اور فرسودہ پراپیگنڈے سے زیادہ کچھ نہیں۔ دونوں ممالک مشترکہ طور پر ایک دوسرے پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔

امریکی بالادستی کی پالیسی ہر ایک کو شرائط کا حکم دینے کی عادی رہی ہے۔ انہیں نوآبادیاتی نظام کے علاوہ کسی اور قسم کا تعاون نظر ہی نہیں آتا۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ تعاون کی دیگر شکلیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اگر روس نے مغرب کو چھوڑ دیا تو وہ چین کا زیردست ہوگا، یہ سوچنا ہی مضحکہ خیز ہے۔ اس کے برعکس سچ یہ ہے کہ تعاون کی دیگر صورتیں ہوسکتی ہیں۔ امریکی بالادستی کا دور ختم ہوا اور کثیر قطبی دنیا میں طاقت کے کئی مراکز ہوسکتے ہیں۔ روس کا ماننا ہے کہ ایک تہذیب دوسری تہذیب پر تسلط حاصل نہیں کرسکتی، یہ دونوں کے باہمی تعلقات میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

Related Posts