بڑھتی ہوئی انتہا پسندی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہمیں فخر ہے کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کے طور پر اسلام کے نام پر بننے والاپہلا ملک ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست میں  عدم برداشت اور مذہبی انتہاپسندی بھی پنپ سکتی ہے۔

انہی دنوں مصر میں اخوان المسلمون کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی اسلامی تحریکیں عروج پر تھیں، دہشت گردی کی سرگرمیوں کے بعد مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے اس تحریک کو کچل دیا اور اخوان المسلمون کے رہنماؤں کو قید کردیا۔

سید قطب کو 1966 میں پھانسی دے دی گئی ۔اخوان المسلمین نے انور سادات کے قتل کے بعد پسپائی اختیار کی اور کئی دہائیاں خاموشی میں گزاریں۔ اصل میں جمال عبدالناصر، انورسادات اور حسنی مبارک کی جیل خانوں میں موجودگی کے دوران اسلامی انتہا پسندی کا بیج بویا گیا ۔

پاکستان میں 1949 میں مولانا مودودی کی تشکیل کردہ جماعت اسلامی نے اخوان المسلمون کی آبیاری کی، جماعت اسلامی ملک کی قدیم ترین جماعتوں میں سے ایک ہے لیکن چند سیٹوں پر کامیابی کے علاوہ یہ جماعت کبھی بھی اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا مطمع نظر تھا کہ مسلمان اسلام سے قبل کے دور جاہلیت میں واپس آچکے ہیں اوراسلامی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کا ایک رہنماء اصول عدم تشدد کے ذریعہ مقاصد کو حاصل کرنا تھا جو جلد ہی شدت پسند ی میں تبدیل ہوگیا۔

افغان جہاد مجاہدین کی تخلیق کا باعث بنا جس نے پاکستان میں بے پناہ حمایت حاصل کی۔ جب یہ افراد واپس لوٹے تو انہوں نے بندوقیں اپنے ہم وطنوں کی طرف موڑ دیں جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ فساد اور تشدد ہوا۔

1988 میں القاعدہ کی بنیاد رکھی گئی اورنائن الیون کے حملوں کے بعد اسلامی شدت پسندی میں اضافہ دیکھا گیا۔ بہت سے نوجوان جنہیں امریکہ کی زیر قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ سے مایوسی ہوئی تھی وہ انتہا پسند اور جہادی تنظیموں کی طرف متوجہ ہوئے جہاں انہوں نے تربیت اور حمایت حاصل کی۔

آج انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 70 سے زیادہ تنظیمیں غیر قانونی اور کالعدم قرار دی جاچکی ہیں۔ ان کو قریب سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بیشتر مذہبی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے استثنیٰ کے ساتھ کام جاری رکھا ہے اور ان کے رہنماؤں کو ریاستی سپورٹ حاصل ہے۔

ابھی حال ہی میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ذریعہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں دہشت گردی کی مالی اعانت کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے اور ان کی تخریبی سرگرمیوں کو روک دیا گیا ہے۔

پاکستان ان تحریکوں اور دہشت گردی کی تنظیموں کا فطری اڈہ تھا کیونکہ یہ ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے قائم ہوا تھا۔ قوم نے فوجی حکمرانی اور پارلیمانی جمہوریت کو دیکھا ہے ۔ قوم گذشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف تلخ جنگ میں ڈوبی ہوئی ہے جس نے معاشی نمو اور استحکام کو تباہ کیاہے۔

حالیہ ہفتوں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر درجنوں واقعات رونما ہوئے ہیں ،تفریق پھیلانے کے لئے سوشل میڈیا فرقہ ورانہ تنظیموں کے لئے ایک نیا محاذ بن کرسامنے آیا ہے۔ہمارے تشکیل کردہ فرینکنسٹائن نے ہزاروں جانیں لی ہیں اور قوم کو فرقہ ورانہ اور نسلی خطوط پر تقسیم کیا ہے۔

ہمارے معاشرے میں موجودفرقہ واریت نے ہماری کمزوریوں کو بے نقاب کردیا ہے اور اگر فرقہ واریت و انتہا پسندی کا معاملہ سڑکوں پر پھیلتا ہے تو انتشار پیدا ہوسکتا ہے، آج فرقہ واریت پالیسی سازوں کیلئے یہ بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے اورآج ہمیں اپنے پیدا کردہ اس عفریت پر قابو پانا ہوگا ورنہ بہت دیر ہوجائیگی۔

Related Posts