بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معمولات زندگی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا براہ راست اثر ہماری روز مرہ کی زندگی کے اخراجات پر پڑتا ہے۔ ہماری آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ گھریلو اخراجات اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث دکانداروں، فیکٹریوں اور دیگر کاروباروں کے لئے پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے جس کا اثر ہم پر بھی پڑتا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت صحیح راہ پر گامزن ہے’اور ہم صحیح سمت کی طرف چل پڑے ہیں،یہ بیانات سمجھ سے بالاتر ہیں کیونکہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں باقاعدگی سے اضافہ کیا ہے۔

گیس کی قیمت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری جانب سردیوں اور حالیہ مہینوں میں ہم نے جو گیس کی قلت برداشت کی ہے اس کا ذکر نہ کیجئے۔ ہمارے باورچی خانے کے بلوں کے ساتھ ساتھ گھر پر کھانا بنانے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تندور ی نان کی قیمت بڑھ رہی ہے اور عام کھانا اب غریبوں کی پہنچ سے باہر ہو رہا ہے کیونکہ عام آدمی پر بھی اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔ نان بیچنے والے کہتے ہیں کہ وہ قیمت کو کم نہیں کرسکتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایک تو انہیں گیس کی مناسب فراہمی ممکن نہیں رہی اور گیس کی قیمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔

انسان زندہ تو رہتا ہے مگر ہم نقل و حمل کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پیٹرول کی قیمتی بہت زیادہ بڑھادی گئی ہیں، جس سے ہماری روزمرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے، چاہے ہمیں کام پر جانا ہو یا اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا ہو۔ ہماری تنخواہ کا ایک بہت بڑا حصہ ایندھن کی لاگت پر خرچ ہوجاتا ہے۔گذشتہ ماہ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں تین بار اضافہ کیا تھا۔ کسان اپنی پیداوار کم قیمت پر فروخت کر رہے ہیں لیکن ٹرانسپورٹ چارجز کے باعث جب مال مارکیٹ میں پہنچتا ہے تو وہ مہنگا کردیتے ہیں۔

کاروباری ماہرین کا خیال ہے کہ بڑھتے ہوئے نقل و حمل کے اخراجات کی وجہ سے مصنوعات کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور اشیاء دکانوں تک پہنچنے تک زیادہ مہنگی ہوجاتی ہیں، جس کے با عث ہم برآمدات بڑھانے میں بھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔ حکومت کے پاس اس بات کا واحد جواب یہ ہوتا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پالیسیاں بنانے والوں کو تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھانا ہوگی یا بہتر حکمت عملی کے ساتھ فیصلے کرنے ہوں گے، لیکن اس سب کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ معیشت صحیح سمت کی طرف جارہی ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے کیونکہ پچھلی حکومت نے قومی خزانے کو خالی کردیا تھا، مگر ہم معاشی استحکام کے حوالے سے یہ جانتے ہیں اور یونیورسٹیوں میں ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ایک اچھا ماہر معاشیات وہ ہے جو دستیاب وسائل کے مطابق منصوبہ بندی کرتا ہے۔ عوام اپنی معاشی پریشانیوں کا علاج چاہتے ہیں لیکن ہمارے معاشی ماہرین مختلف بہانے میں مصروف ہیں اور واقعتا قوم کی ترقی پر کام نہیں کررہے۔

حکومت نے کورونا وباء کے باوجود گذشتہ کئی مہینوں سے برآمدات میں اضافے پر فخر کیا ہے۔ یہ سچ ہے لیکن قلیل مدت کے لئے ہوا ہوگا، کیونکہ ہندوستانی اور ملائشیا کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے اور چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ بڑھ گئی ہے، جس سے ہمیں ایک موقع ملا اورہم نے فائدہ اٹھایا۔ لیکن اُس وقت کیا ہوگا جب تمام ممالک کورونا وائرس کی وباء پر قابو پالیں گے اور ہم تجارتی خسارے کے ساتھ موجودہ صورتحال سے باہر نکل جائیں گے۔

ہمارا ملک بغیر کسی بہترمعاشی منصوبہ بندی کے ترقی حاصل نہیں کرسکتا۔ ہمارے معاشی ماہرین کو اپنی پارٹی کو مطمئن کرنے کے لئے سیاسی کارکن نہیں بننا چاہئے بلکہ وہ معاشی سائنس دان ہوتے ہیں جو طلب اور رسد کی پیش گوئی کرتے ہیں اور پالیسیاں بناتے ہیں۔ انہیں قوم کی ترقی اور لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بہتر کام کرنا چاہئے۔

Related Posts