سندھ کے حقوق

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سندھ کے عوام کی توجہ کورونا اور لاک ڈاؤن پر مرکوز ہونے کے دوران ایک صوبے میں جعلی ڈومیسائل کے مسئلے نے پوری شدت سے سر اٹھالیا ہے، ملک کے مین اسٹریم میڈیا نے پہلے یہ معاملہ اٹھایا اور اب سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے۔

موجودہ رہائشی پتے کی بنیاد پر لوگ اکثر نوکری ودیگر جگہوں پر بوقت ضرورت پیش کرنے کیلئے اکثر جعلی ڈومیسائل بنواتے ہیں لیکن پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد کی جانب سے سی ایس ایس کے امتحانات میں شرکت کرکے بیوروکریٹس بننے کیلئے سندھ میں بوگس ڈومیسائل بنوانے کے انکشافات کی وجہ سے سندھ کے عوام میں شدید بے چینی پھیل گئی ہے۔

چیف سیکریٹری سندھ نے واقعے کا نوٹس لیا اور معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تاہم یہ معاملہ کوئی خیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ سندھ کی کئی سیاسی جماعتیں اور قوم پرست گروپ برسوں سے اس بات پر وایلہ مچا رہے ہیں کہ سندھ کے لوگوں سے روزگار چھینا جارہا ہے لیکن ان جماعتوں اور گروہ کی آپسی تقسیم کی وجہ سے یہ معاملہ ہمیشہ گرد کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔

سندھ کی قوم پرستی اس اصول پر مبنی ہے کہ صوبے کے وسائل پر سندھ کے لوگوں کا پہلا حق ہے۔ جی ایم سید کو جدید سندھ قوم پرستی کا بانی سمجھا جاتا ہے ، جن کی 25 ویں یوم وفات 25 اپریل کو منائی گئی تھی۔ جی ایم سید کے مطابق جو بھی کسی دوسرے صوبے سے سندھ آتا ہے اس کا مقامی وسائل پر کوئی حق نہیں ہے۔

جی ایم سید نے 1971 کے انتخابات اور سقوط ڈھاکہ کے بعد پارلیمانی سیاست سے دوری اختیارکرلی اور اپنے پیروکاروں کو پارلیمنٹ میں داخلے سے حوصلہ شکنی کی اور انہیں پارٹی کے بجائے پریشر گروپ کے طور پر نامزد کیا۔ ان کے انتقال کے بعد سندھ کے حقوق کے لئے تحریک کمزور ہوگئی ،قوم پرست جماعتیں لڑائی جھگڑوں اور نااہل رہنماؤں کے ہاتھوں تبا ہ ہوگئیں اور بعض نے علیحدگی پسندی کے خطرناک راستے کا انتخاب کیا۔

موجودہ منظر نامہ جس میں سندھیوں کے حقوق غصب کیے گئے ہیں اس کی پیش گوئی سندھ کے پہلے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم اللہ بخش سومرو نے کی تھی۔ انہیں سیکولر ہم آہنگی کا مرتد سمجھا جاتا تھا اور فرقہ واریت سے متعلق ان کے موقف نے انہیں سندھ میں افسانوی حیثیت دی۔ وہ اس مقصد کے لئے شہید ہو گئے اور انہیں سندھی قوم پرستی کا نظریاتی والد سمجھا جاتا ہے۔

برسوں سے سندھ کے عوام غربت ، بیروزگاری اور ناانصافی کا شکار ہیں۔ وہ یونیورسٹیوں میں داخلے اور ملازمتوں سے محروم ہیں اور پریشانی کے وقت کوئی قیادت میسرنہیں ۔ یہ قوم پرست جماعتیں گذشتہ بارہ سالوں سے حکومت کرنے والی پی پی پی کے اقتدار پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں جبکہ دوسری جماعتوں کے پاس بھی سندھ کے لئے کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے۔

اس بحران کو نسلی مسئلے کی حیثیت سے دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن مرکزی توجہ وہی لوگ ہیں جو دوسرے صوبوں سے آکرجعلی ڈومیسائل حاصل کرکے وسائل پر قابض ہوجاتے ہیں،اس معاملے کی مکمل اور شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں اور تمام بوگس ڈومیسائل کو کالعدم قرار دے کر انضباطی کارروائی کی جانی چاہئے۔ ہمیں اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ باقی حقوق بھی غصب کرلئے جائیں۔

Related Posts