پاک کوریا تعلقات اور دوطرفہ ترقی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں جنوبی کوریا کے سفیر ساؤ سنگپیو جلد کورین دارالحکومت سیول واپس پہنچیں گے تاہم انہوں نے صرف ڈھائی سال کے مختصر عرصے میں دو طرفہ تعلقات کیلئے اہم کام کیا۔

سفیرِ جنوبی کوریا نے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے جو اقدامات کیے وہ دونوں ممالک کیلئے اقتصادی و تزویراتی فوائد کے حامل ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان کے بعد آنے والے سفیر دو طرفہ تعلقات کو مزید نئی منازل سے ہمکنار کریں گے۔

اپنے الوداعی استقبالیہ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے جناب ساؤ نے کہا کہ جب میں یہاں کورین سفیر کی حیثیت سے دئیے گئے اپنے وقت پر غور کرتا ہوں تو میں شکر گزار اور احترام کے احساس سے لبریز ہوجاتا ہوں۔ پاکستانی عوام کے پرتپاک استقبال اور مہمان نوازی نے میری ذاتی زندگی کو خوشگوار بنایا جبکہ پاکستان اور کوریا کے مابین دو طرفہ تعلقات میں پیشرفت کا مشاہدہ بہت زیادہ فائدہ مند رہا۔

گفتگو کے دوران کورین سفیر نے کہا کہ جب میں پاکستان پہنچا تو یہ ملک کورونا اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف تھا۔ خطے میں سلامتی کے خدشات، خاص طور پر کابل پر افغان طالباتن کے قبضے سے میرے کردار میں پیچیدگی کی ایک اضافی تہ شامل ہوگئی۔ خاص طور پر پاکستان میں موجود کورین باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اہم تھا۔ مزید برآں ملک میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے پاکستانی عوام کو درپیش مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ان تمام رکاوٹوں اور چیلنجز سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کیلئے پاکستانی حکومت کی قابلِ ستائش کاوشوں کا اعتراف کرنا ہوگا جس سے دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھایا جاسکے۔

کورین سفیر نے اپنے ملک کی مختلف وزارتوں اور ایجنسیوں کی جانب سے مختلف شعبوں میں اپنے پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ فعال طور پر تعاون کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔ جنوبی کوریا کو انسانی وسائل کی برآمدات میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پاکستان میں کوریا کی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ باہمی تجارت میں بھی بہتری آئی۔

زراعت، ثقافتی ورثے اور موسمیاتی تبدیلی کے شعبہ جات میں متعدد اقدامات اٹھائے گئے جبکہ ترقیاتی تعاون میں بھی بہتری آئی۔ ان شراکت داریوں سے دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں پیش رفت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔

ایک موقعے پر کورین سفیر نے کہا کہ میرے دور میں ہونے والی کچھ قابلِ ذکر کامیابیوں اور اقدامات پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ ایک اہم کامیابی کوریا میں داخل ہونے والے پاکستانی کارکنان کی تعداد میں 1000 سے 4گنا اضافہ تھا۔ یہ ترقی دونوں ممالک کے مابین مضبوط تعلقات اور روزگار اور ثقافتی تبادلے کے بڑھتے ہوئے مواقع کی نشاندہی کرتی ہے۔

ایک اور شعبہ جہاں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی، وہ تجارت ہے جس کا حجم 1 ارب سے 2 ارب ڈالر تک یعنی دو گنا ہوگیا ہے۔ تجارت میں توسیع پاکستان اور کوریا کے مابین مشترکہ اقتصادی تعاون کا ثبوت ہے۔ مزید یہ کہ ہائیڈرو پاور کے شعبے میں کورین اور پاکستانی کمپنیوں کے مابین تعاون نے پاکستان میں پائیدار توانائی کی پیداوار کے دروازے کھول دئیے جس سے ہماری توانائی کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔

مزید برآں کورین سفیر کے دور میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں کوریا انٹرنیشنل کو آپریشن (پی کے این سی) کے تعاون سے پاک کوریا نیوٹریشن سینٹر قائم کیا گیا جو خاص طور پر خواتین اور بچوں میں غذائی قلت سے نمٹنے کیلئے اہم اقدام ہے۔ یہ مرکز یقینی طور پر کمزور معاشروں کی صحت اور بہبود کو بہتر بنانے میں مدد دے گا اور سماجی ترقی کیلئے ہمارے مشترکہ عزم کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

آزمائش کی گھڑی میں کوریا کی جانب سے بھی پاکستان کیلئے مدد کا ہاتھ بڑھایا گیا۔ کورین حکومت نے تباہ کن سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کیلئے 20 لاکھ ڈالر کی ہنگامی امداد فراہم کی۔ یکجہتی کا یہ اشارہ دونوں اقوام کے مابین پائیدار دوستی اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی خواہش کو اجاگر کرتا ہے۔

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے مابین باہمی تعاون کے بے پناہ امکانات، خاص طور پر قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں موجود ہیں۔کورین سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سولر انرجی جنریشن کے پراجیکٹس میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جس سے مقامی توانائی کی صلاحیت میں اضافہ اور بجلی کی ملکی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ پاک آر او کے 2022ء انفرا اسٹرکچر بزنس فورم نے پاکستان میں شمسی توانائی کے منصوبوں کے امکانات کو تلاش کرنے اور گفتگو کیلئے ایک پلیٹ فارم کا کردار ادا کیا۔

اپنے دور میں بلاشبہ کورین سفیر نے پاکستانی حکام، تاجروں اور سماجی کارکنان کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کیلئے ٹھوس کوششیں کی اور اس بات کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی کہ ہم کس طرح پاکستان اور کوریا کے مابین زیادہ سے زیادہ تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں جبکہ پاکستان میں مواقع اور افراد کی کوئی کمی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سفیرِ کوریا کو پاکستان کے زیادہ افراد سے رابطوں کا موقع نہیں مل سکا اور نہ ہی وہ اس ملک کے مزید عجائبات کا تجربہ کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ پاک کوریا تعلقات ہمیش فروغ پاتے رہیں گے۔ پاکستان کوریا کیلئے اہم مقام رکھتا ہے اور رواں برس دونوں ممالک باہمی سفارتی تعلقات کی 40ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ ہماری مشترکہ پیشرفت کی رفتار برقرار رکھنے کیلئے فوری طور پر نئے سفیر کا تقرر کیا جائے تاکہ پاکستان اور کوریا کے مابین پائیدار دوستی اور ترقی کا خوبصورت سفر آنے والے سالوں میں جاری رہ سکے۔

Related Posts