خان صاحب!  اپنا بویا یہاں کاٹنا بھی پڑے گا ۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 نشہ کوئی بھی ہو انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا اور اگر یہ نشہ اقتدار کا ہو تو انسان بعض اوقات تمام حدیں پار کرجاتا ہے، ایسا ہی کچھ معاملہ سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی رہا۔

عمران خان دھاندلی اور 35 پنکچر کے مفروضے پر جوں کنٹینر پر چڑھے تمام اخلاقیات، ادب آداب اور تہذیب کے لبادے اتارتے گئے اور ایسی زبان کا استعمال کیا جس کو کسی صورت قابل تعریف یا تقلید نہیں کہا جاسکتا۔

یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں بھٹو سے لے کرنواز شریف تک نفرت انگیز زبان کا استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن ایک تسلسل کے ساتھ عوامی اجتماعات میں  باقاعدہ کسی کا نام بگاڑنا یا غلط القابات سے پکارنا عمران خان کا ہی کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔

عمران خان اقتدار میں ہونے کے باوجود ایسی نازیبا زبان کا استعمال کرتے رہے جس پر ان کے مداح سر دھنتے اور اس زبان کو اپنی عملی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے رہے جس کا عملی نمونہ سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے۔

عمران خان نے پاکستان کی تاریخ میں بدترین حکومتی دور گزارا ، اس کی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت ناکام ترین حکومت کہلاتی ہے اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کارکنوں یا رہنماؤں سے اگر کارکردگی سے متعلق سوال کیا جائے تو ان کے پاس گالیوں اور بدزبانی کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہوتا۔

سیاست میں عدم برداشت کا جو کلچر عمران خان نے پروان چڑھایا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کو خود عمران خان نے بیرون ملک بھیجا اور بعد میں ان پر پھبتیاں کستے رہے، کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ خان صاحب اپنے فیصلے کا تو ٹھیک سے دفاع کرلیں، خیر یہ تو سیاست ہے اس میں پل میں توشہ پل میں ماشہ چلتا ہے لیکن مخالفین کے گھروں کا گھراؤ یہ کونسی سیاست ہے ؟۔

پی ٹی آئی خودکو سمندر پار پاکستانیوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت کہتی ہے اور ممکن بھی ہے کیونکہ بیرون ملک رہنے والوں کو نہ پاکستان کے حالات کا ادراک ہے نہ مہنگائی کی چکی میں پسنے کی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ بھرے پیٹ کے ساتھ تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کو پاکستان کے عام آدمی کی پریشانی کا اندازہ ہوتا تو شائد وہ بھی پی ٹی آئی کے حمایت سے دستبردار ہوچکے ہوتے لیکن اندھی تقلید کرنے والے سمندر پار پاکستانیوں کو یہاں بسنے والوں کی تکلیفوں کا نہ اندازہ ہے نہ احساس اسی لئے وہ عمران خان کی حمایت میں کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔

سیاسی نظریہ سے اختلاف اپنی جگہ ،اپنی پسندیدہ جماعت کی حمایت ہر انسان کا حق ہے اور پی ٹی آئی کے کارکنان پاکستان میں ہوں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہوں انہیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہیں عمران خان کی حمایت کریں لیکن۔۔۔۔ یہاں اگر مخالفین کے گھیراؤ کی بات ہے تو یہ قطعی مہذب انداز نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کارکن گزشتہ کافی عرصہ سے لندن میں نوازشریف اور ان کے اہل خانہ کو مسلسل ہراساں کررہے ہیں جو کہ ایک شرمناک عمل ہے اور جیسا کہ ہر عمل کا ردعمل بھی ہوتا ہے تو اب ن لیگ نے بھی جواب میں خان صاحب کی سابقہ اہلیہ جمائمہ کے گھر کے باہر احتجاج شروع کردیا ہے۔

یہاں کسی کی حمایت کسی صورت نہیں کی جاسکتی لیکن بتانا یہ مقصود ہے کہ خان صاحب جو کانٹے آپ نے بوئے ہیں ان کو کاٹنا بھی اب آپ کو ہی پڑے گا کیونکہ اگر آپ اپنے کارکنوں کو لندن میں نوازشریف کے خاندان کے گھیراؤ سے روکتے تو شائد آج یہ لوگ جمائمہ گولڈ اسمتھ کے گھر احتجاج نہ کرتے۔

جہاں تک جمائمہ کے پاکستان چھوڑنے کا تعلق ہے تو بھلے ہی انہوں نے پاکستان چھوڑ دیا ہو لیکن آپ کے تینوں بچے جمائمہ کے پاس ہی ہیں اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ آپ کے تینوں بچوں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو جناب تعلق توحسن، حسین نواز کا بھی کوئی نہیں اور مریم نوازاور حسین و حسن کے بچوں کو بھی آپ کے کارکن ہراساں کرتے رہے ہیں۔

اگر آپ اس وقت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے اور اپنے کارکنوں کو اخلاق کے دائرے میں لے آتے تو آپ کے بچوں کو بھی شرمندگی نہ ہوتی لیکن افسوس کہ آپ ایسی شرمناک حرکتوں پر خوشی کا اظہار کرتے اور عوامی ردعمل قرار دیتے رہے ہیں اس لئے اب جوابی ردعمل کیلئے بھی تیار رہیں کیونکہ جو کانٹے آپ نے بوئے ہیں ان سے گلاب کسی صورت نہیں نکلیں گے ، اب اپنا بویا آپ کو خود کاٹنا پڑے گا۔

Related Posts