پاکستان کی روس سے بڑھتی قربت

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ خوش آئند بات ہے کہ خطے کے دو اہم ملک پاکستان اور روس کچھ عرصے سے ایک دوسرے کے قریب آنے کیلئے دوطرفہ سفارت کاری میں مصروف ہیں۔

یہ وہ عمل ہے جس کے بارے میں بحیثیت قوم ہم نے بھٹو حکومت کے بعد کبھی نہیں سوچا۔ پاکستان کے افغانستان میں امریکی مداخلت کے سامنے جھکنے سے پہلے بہت سی اہم باتیں ہوئیں۔ اگرچہ ماضی میں تجارت کے لیے گرم پانیوں کی طرف بڑھتے ہوئے روس کے قدم روکنے میں پاکستان کا بڑا کردار تھا، تاہم نائن الیون کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کے اختتام پر پاکستان نے افغانستان سے انخلاء کے معاملے پر افغان طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل کرنے کے لیے اچھا کردار ادا کیا۔ یہ افغانستان اور خطے کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت تھی، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ چار دہائیوں میں بڑی قربانیوں کے باوجود پاکستان کو اس جنگ میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔

افغانستان سے امریکی نیٹو افواج کے انخلا کے بعد صرف افغان طالبان ہی نہیں، المیہ یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی پاکستان کے تئیں اجنبی اور غیر متعلق ہوگئی۔ طالبان اور امریکا دونوں نے ہی مختلف وجوہات کی بنا پر افغانستان میں ہونے والی ہر برائی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا۔ یوں ہردو کے ساتھ پاکستان کا رومانس آخری تجزیے میں زہریلا ہی ثابت ہوا۔ یہی دیکھیں کہ مغرب کے زیر اثر آئی ایم ایف نے بھی پچھلے دو سالوں میں پاکستان کے لیے بڑے مسائل کھڑے کر رکھے ہیں، نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ملک کو مسلسل ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا ہے۔

دوسری طرف مذاکرات کے کئی دور کرنے کے باوجود پاکستان افغان طالبان کی حکومت کا اعتماد حاصل نہیں کر پایا ہے۔ اب بھی عالم یہ ہے کہ دونوں فریقین کو اپنے دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔

چین کا پاکستان پر غیر متزلزل اور مستقل اعتماد خاص طور پر گزشتہ ایک دہائی میں، کافی مددگار اور امید افزا رہا ہے۔ بلاشبہ چین نے روس اور پاکستان کے درمیان فاصلے کم کرنے میں ایک ایسے وقت میں مرکزی کردار ادا کیا جب آئی ایم ایف اور امریکا پاکستان کے ساتھ نازک موڑ پر مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں اور اسے مزید مشکل میں ڈالے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں تمام تر مشکلات کے باوجود روسی تیل کا کارگو پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے نئے راستے کھولنے کے لیے موجود ہے۔ توقع ہے کہ روس پاکستان انرجی کوریڈور اپنے مینڈیٹ کو وسیع تر دوطرفہ تعاون میں بڑھا دے گا۔ اقتصادی تعاون اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے شاندار ماضی کو زندہ کرنے کا شاید یہ بہترین وقت ہے۔ اپنے حالات کی درست تراش خراش کے لیے پچھتر سال بہت لمبا عرصہ ہے، جو خوش قسمتی سے اب اچھے مستقبل کے امکانات کے ساتھ انجام آشنا ہونے کو ہے۔

پاکستان کو اپنی تاریخ کے ایک غیر مستحکم سیاسی ماحول میں پیسے، توانائی اور تجارت و سرمایہ کاری کی سخت ضرورت در پیش ہے۔ عالم یہ ہے کہ پاکستان اس ضرورت کے تحت “دوستوں” اور آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھنے پر مجبور ہے۔ دریں اثنا روس کو یوکرین کے ساتھ تنازع کا ایک اور بڑا دھچکا لگا ہے جہاں مؤخر الذکر کو امریکہ-نیٹو کی حمایت حاصل ہے۔ یوکرین میں روس کے لانچ کردہ “خصوصی فوجی آپریشن” میں اگرچہ روس کے بے تحاشا فنڈز اور انسانی وسائل خرچ ہو رہے ہیں مگر اس کے باوجود روس اپنا آپریشن جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہے جبکہ یوکرین تقریبا دیوالیہ ہو چکا ہے، تاہم یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس جنگ کا انجام کس کی فتح اور کس کی شکست کے ساتھ وقوع پذیر ہوگا۔ ایک طرف چین کا مضبوط اتحادی روس ہے اور چین پاکستان کا قریب ترین دوست ہے، دوسری طرف یوکرین ہے، جس کی پشت پر پاکستان کے امریکا جیسے ”دوستوں” کی حمایت موجود ہے۔ یوں اس جنگ کی پاکستان کیلئے بھی بڑی تزویراتی، سیاسی اور اقتصادی اہمیت ہے، لہٰذا پاکستان کو آنے والے دنوں میں مغرب اور پڑوسی روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔

 پاکستان کو روس کا تعاون لینے کے لیے ایک جامع اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ امر نظر نہیں کیا جاسکتا کہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے “سرپرست” کی حیثیت سے روس خطے کی اہم طاقت ہے اور اپنی اس پوزیشن کے باعث پاکستان کی سلامتی، معیشت اور توانائی کے مسائل کے حل میں بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کو اچھی طرح سوچنا چاہیے کہ اگر وہ روس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہتا ہے تو بیان بازی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کو سرد جنگ کی نئی حکمت عملی اور نیٹو کے توسیعی منصوبوں کے خلاف تزویراتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ جرات مندانہ اقدامات کرنے چاہئیں۔

یہاں یہ سوال ہے کہ کیا روس کے ساتھ فوجی تعاون کرنے سے پاکستان کو کوئی نقصان ہوسکتا ہے؟ اس نکتے پر بات کی جاسکتی ہے، تاہم فوجی تعاون سے ہٹ کر موجودہ منظر نامے میں پاکستان روس کے ساتھ کسی بھی ایسے انتظام میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے جس سے علاقائی روابط، امن اور تعاون کو تقویت ملے۔ اس سلسلے میں شنگھائی تعاون تنظیم جیسے پلیٹ فارم خطے میں پاکستان کی صلاحیت کو بروئے کار لانے میں مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

افغانستان اور طالبان علاقائی تعاون بالخصوص پاکستان کے روس کے ساتھ تعاون کی راہ میں چیلنج بن سکتے ہیں۔ اس سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ مینجمنٹ اور پاکستان میں ٹی ٹی پی کے خطرات کو کم کرنے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات کرنا ہوں گے۔

اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یوکرین کے روس کو روکنے میں ناکام ہونے کے بعد امریکہ افغانستان میں واپس آسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوکرین کو تقریباً 100 بلین امریکی ڈالر کی فوجی امداد غیر موثر ہو گئی ہے جبکہ امریکہ کے لیے روس اور چین دونوں پر نظر رکھنا اسٹریٹجک طور پر اہم ہے۔

پاکستان کو اپنے پڑوس میں ابھرنے والے نئے منظر نامے میں زیادہ دانشمندی سے کام لینا ہوگا، اگرچہ روایتی طور پر وہ امریکی نیٹو بلاک کے بہت قریب رہا ہے۔ اب امریکہ نے جو خلا پیدا کیا ہے، وہ پاکستان کے لیے روس اور چین کے درمیان بہتر تعلقات کا ایک موقع بن سکتا ہے۔ دونوں نے امریکی حمایت کی عدم موجودگی میں پاکستان کا بڑا ساتھ دیا ہے۔ اپنے اقتصادی مفادات کو دیکھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات میں غیر جانبداری اور توازن پر مبنی نئی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کا یہ بہترین وقت ہے۔

Related Posts