ملکی مستقبل پر ایک نظر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بدترین سیاسی تقسیم اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے جو اس ملک کے 25 کروڑ شہریوں کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ اور غیر یقینی صورتحال ہے۔ 

غیر یقینی اور پیچیدہ منظر نامے سے متعدد اندرونی اور بیرونی تنازعات، سلامتی کے چیلنجز اور جمہوری کٹاؤ جنم لے چکا ہے۔ اپریل 2022 میں حکومت کی تبدیلی (عمران خان کی رخصتی اور شہباز شریف کی آمد) کے بعد بھی سیاسی افراتفری اور معاشی عدم استحکام کم نہ ہوسکا اور جب موجودہ عبوری حکومت آئی تو پیچیدگیاں مزید بڑھتی نظر آتی ہیں۔

موجودہ صورتحال  کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے تاریخی معاشی بحران کے حل کیلئے رقم کا حصول شروع کردیا۔ جس پر یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ آرمی چیف کا یہ مینڈیٹ نہیں ہے جو عجیب و غریب صورتحال ہے۔ پاکستان کو سیاسی بحران حل کرنے، سیاسی تقسیم کو کم کرنے اور معیشت کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں اور معاشی ماہرین کا ٹولہ سیاسی اور معاشی چیلنجز کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اور ریاستی اداروں کو اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ لیکن اگر آرمی چیف صورتحال کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو اس میں خسارے کی کیا بات ہے جب کہ دیگر تمام ادارے کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ایسے معمولی مسائل پر بحث کرنے کی بجائے ہم سب کو معاشی اور جمہوری احیا پر توجہ مرکوز کرنے اور اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

بلاشبہ پاکستان کی سیاست میں آرمی چیف کا کردار ایک متنازعہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے، کیونکہ فوج ماضی میں متعدد مرتبہ مارشل لا اور آمرانہ حکومتوں کی ذمہ دار رہی ہے۔ تاہم موجودہ آرمی چیف کو ملک کی جغرافیائی و سیاسی پوزیشن اور سیکیورٹی کی حرکیات کی وجہ سے پاکستان کا سب سے طاقتور شخص سمجھا جاتا ہے۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر جنہیں نومبر 2022 میں تعینات کیا گیا تھا کو پاکستان کے مسائل کے حل میں مدد کے لیے بہت سے چیلنجز اور مواقع کا سامنا ہے۔

دورِ حاضر میں معاشی عدم استحکام پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے  اور آرمی چیف کی کوششیں عبوری حکومت کے غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں، کورونا اور دیگر مسائل سے دوچار  معیشت کو بحال کرنے کیلئے  ممدومعاون ثابت ہوں گے۔

قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ آرمی چیف نے ملک کے تاجروں کو اکٹھا کیا اور اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا۔ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دیگر بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے مالی صورتحال میں سہولت اور تعاون کے لیے بھی بات کر سکتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایف آئیز) پاکستان کو بعض شرائط پر قرضے اور امداد فراہم کرتے رہے ہیں جیسے کہ مالیاتی اصلاحات، ٹیکس وصولی اور شفافیت کی شرائط قابلِ ذکر ہیں۔ آرمی چیف کو فوج کے اپنے معاشی مفادات کا بھی تحفظ کرنا ہوتا ہے جس میں کاروباری اور صنعتوں کا ایک بڑا نیٹ ورک شامل ہوتا ہے جو دفاعی بجٹ کیلئے آمدنی پیدا کرتے ہیں۔

سیکیورٹی چیلنج اس وقت دوسرا اہم ترین مسئلہ ہے۔ آرمی چیف دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی قیادت کر رہے ہیں جو پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ مختلف انتہا پسند گروپوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری رکھنے کے آرمی چیف کے  عزم کو تمام سیاسی اور سماجی طبقات کی حمایت حاصل ہوگی۔ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور داعش کی حالیہ دہشت گردی تشویشناک ہے۔ ماضی میں بھی یہ کالعدم تنظیمیں عام شہریوں اور سیکورٹی فورسز پر حملے کرتی رہی ہیں۔ سول اداروں اور تنظیموں کے تعاون کے بغیر فوج کے لیے تنِ تنہا افغانستان، بھارت، ایران اور چین کے ساتھ سرحدوں پر جہاں ممکنہ تنازعات اور تناؤ موجود ہیں، سیکورٹی کی صورتحال کو سنبھالنا مشکل ہے۔ آرمی چیف کی رہنمائی میں باوردی پاک فوج کے اہلکار جو کوششیں کر رہے ہیں ہمیں اس میں تھوڑا سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر شہری معلومات اکٹھا کرنے اور خفیہ کارروائیاں کرنے کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کرے۔

تیسرا مسئلہ پاکستان کی الجھی ہوئی خارجہ پالیسی ہے جسے قومی مفادات اور ترجیحات کے مطابق درست اور مستقل مزاجی سے چلانے کی ضرورت ہے۔ براہ کرم مزید غلطیاں نہ کی جائیں۔ ہمیں اپنے قومی ایجنڈے پر نظر رکھتے ہوئے طویل المدتی اسٹریٹجک اور ترقیاتی پیش رفت کرنا ہوگی۔ سابق آرمی چیفس کی طرح جنرل سید عاصم منیر بھی دوست ممالک کے ساتھ روابط میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ بلاشبہ اہم اقدام ہے کیونکہ آرمی چیف پاکستان کی سیاست اور معیشت میں فوج کے مرکزی کردار اور اسٹیبلشمنٹ کے وعدوں اور  یقین دہانیوں پرعمل پیرا ہیں۔

آرمی چیف پاکستان کی خارجہ پالیسی اور طویل مدتی اتحادیوں کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ آرمی چیف بھارت کے ساتھ تعمیری بات چیت کر سکتے ہیں جس کے ساتھ مقبوضہ کشمیر اور دیگر مسائل پر پاکستان کا دیرینہ تنازعہ ہے۔ صرف فوج ہی افغانستان کے معاملات دیکھ سکتی ہے جہاں سے 2021 میں امریکی فوجیوں کے انخلا نے طاقت کا خلا اور طالبان کی بحالی کو جنم دیا۔  سی پیک منصوبوں میں فوج کی مداخلت پر عظیم دوست چین کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کی کوششوں سے چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مضبوط ہو سکتے ہیں۔ چین پاکستان کا اسٹریٹجک پارٹنر اور معاشی خیر خواہ ہے لہٰذا ہمیں امریکا کے ساتھ سمجھوتہ کیے بغیر چین کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے ہوں گے جو باہمی بداعتمادی اور متفرق مفادات کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہیں۔

چوتھا مسئلہ یعنی پاکستان میں جمہوری کٹاؤ کو روکنا ہوگا۔ معیشت کو مضبوط بنانے اور سرحدوں اور اندرونِ ملک سکیورٹی کو یقینی بنانے میں آرمی چیف کے کردار کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بے جا ہنگامہ آرائی کے امکان پر سوالات اور پریشانیاں جنم لیتی ہیں۔ بہت سی افواہیں پہلے ہی  پھیل چکی ہیں۔ لہٰذا مزید جمہوری کٹاؤ سے بچنا ضروری ہے۔ بلکہ ملک کا حتمی پاور سنٹر پاکستان کے جمہوری اصولوں اور اداروں کا احترام برقرار  رکھنے میں مدد دے گا جبکہ جمہوریت کئی دہائیوں کی فوجی حکمرانی اور مداخلت سے کمزور پڑ چکی ہے۔ آرمی چیف سمیت عسکری قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت یا سویلین اتھارٹی کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا ہوگا۔ وہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فوج پیشہ ورانہ اور جوابدہ رہے، اور یہ کہ وہ اپنی طاقت کا غلط استعمال یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کرے۔ ملک کو فوج اور معاشرے میں بڑے پیمانے پر رواداری اور تکثیریت کے کلچر کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔

موجودہ صورتحال میں تمام ریاستی ادارے پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حل میں مددگار ہونے کیلئے ہم آہنگی اور تعاون کرسکتے ہیں۔ انہیں سویلین حکومت اور معاشرے کے ذمہ دار اور تعمیری شراکت دار کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس صورت حال میں اعلیٰ عدلیہ کے ذمہ دارانہ رویے اور عقلی کردار کو بھی کمزور نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست زدہ، متاثر اور محرک فیصلوں نے سیاسی اور سماجی ہم آہنگی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ سلسلہ مزید جاری نہ رکھا جائے۔

Related Posts