پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع زمانہ قدیم سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے، آج سے ہزاروں سال پہلے بھی، جب یہ خطہ زمین سندھ کہلاتا تھا اور ہند سے جغرافیائی، تہذیبی، معاشرتی اور سیاسی طور پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت سے شناخت کیا جاتا تھا، شمال تا جنوب یہ علاقہ اُس دور میں عالمی تجارت کا اہم ترین راستہ تھا، جسے شاہراہ ریشم کے نام سے سے جانا جاتا تھا۔ اس تجارتی گزر گاہ کے ذریعے چین و ہند کا رتجارتی مال سندھ کی بندرگاہوں کے راستے یمن اور افریقہ سے ہوتے ہوئے یورپ تک پہنچتا اور یورپ، افریقہ اور عرب کا سامان تجارت اسی راستے ہند و چین تک پہنچایا جاتا تھا۔
اسی طرح ایک راستہ سندھ سے ایران اور ترکی کے ذریعے یورپ پہنچتا چنانچہ اس خطے کو عالمی تجارت میں شہ رگ کی حیثیت حاصل تھی۔ اِس لئے ہر دور میں اس تجارتی گزرگاہ پر اپنی علمداری قائم رکھنے اور اپنے تجارتی مال کے لئے اسے محفوظ بنانے کے لئے یہ خطہ اپنے زمانے کی عالمی طاقتوں کا مرکز نگاہ رہا ہے بلکہ اس پر دسترس حاصل کرنے کے لئے عالمی طاقتوں کے در میان پنجہ آزمائی کا میدان بھی رہا ہے۔
شمال میں عظیم چین، شمال مغرب میں افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستیں، مغرب میں ایران اور مشرق میں ہند کی طاقتور ریاستیں اس خطے کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اس پر تسلط قائم کرنے کے لئے باہم دست و گریباں رہی ہیں، وسط ایشیاسے آریاؤں کی لہر در لہر آمد، چین کی شمالی علاقوں پر تسلط کی تگ و دو، شمال مغرب سے افغان جنگوؤں کے پے در پے حملے اور مغرب سے متعدد بار ایرانی و ساسانی لشکر کشی اسی کشمکش کا حصہ تھا، یہاں تک کہ ترک، منگول اور یونانی بھی اِس علاقے پر حملہ آور ہوئے اور اپنے نقوش ثبت کئے۔
صحرائے عرب جب اسلام کے نور سے منور ہوا تو مسلمان دنیا کے نقشے پر ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر ابھرے اور اپنے وقت کی دونوں عالمگیر طاقتوں روم اور ایران کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ عربوں کا سندھ (موجودہ پاکستان) سے تعلق قدیم تھا اور وہ شاہراہ ریشم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے، چنانچہ اسلامی خلافت کے ابتدائی سالوں ہی میں سندھ کے ساتھ تجارت کو مضبوط کرنے اور اس قدیم اور اہم ترین گزرگاہ کو عرب تجارتی قافلوں کے لئے محفوظ بنانے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا۔
اس دور میں سندھ پر ایک غاصب کشمیری پنڈت کی حکومت تھی جس کا سندھ اور سندھی عوام کے ساتھ اتنا ہی تعلق تھا، جتنا انیسویوں صدی کے غاصب نوآبادیاتی حکمران انگریزوں کا تھا، چچ اور اس کے بیٹے داہر نے سندھ پر غاصبانہ قبضے کے بعد بے رحمانہ ٹیکس نظام رائج کر رکھا تھا، سرداروں کے ذریعے غریب سندھی عوام کا خون نچوڑ کر شاہی خزانے بھرنے اور اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لئے غیر ضروری طور پر بڑی فوج کے اخراجات پورے کئے جاتے تھے، کم و بیش سو سال پر محیط یہ براہمن راج سندھ کی تاریخ کا تاریک ترین دور تھا جس میں سندھ میں ترقی کا پہیہ رک گیا تھا، عملاً ڈاکو راج قائم تھا، سرمایہ کار دوسرے ممالک کا رخ کر رہے تھے، تجارتی قافلوں کی لوٹ مار کے نتیجے میں چینی اور عرب تاجر مشرق بعید کے طویل سمندی راستے سے سامان تجارت عرب اور افریقہ پنچانے لگے تھے، چنانچہ سندھ کی اہمیت اور آمدن میں کمی آنے لگی، جیسا کہ مشہور ہے کہ کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں، چنانچہ محمد بن قاسم سندھیوں کے لئے نجات دھندہ بن کر آیا اور اس اہم تجارتی گزرگاہ کو ایک بار پھر بحال کیا۔
مسلمانوں نے اس خطے پر قدم رکھے تو ہزاروں سال کی تاریخ کے برعکس، مقامی لوگوں نے اسلام کے پیغام اور اس کے سفیروں کا یوں استقبال کیا کہ یہ خطہ اسلام کا گھر اور قلع بن گیا یہی وجہ ہے کہ سندھ کو باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔
آٹھویں سے انیسوں صدی عیسوی تک یہ علاقہ مختلف مسلمان حکومتوں کے ماتحت رہا۔ واسکوڈی گاما نے افریقہ کے گرد چکر لگا کر ہندتک پہنچنے کے لئے نیا راستہ دریافت کیا تو عربوں کی تجارت پر اجارہ داری ختم ہوئی، نہر سوئیز کے بننے سے ہزاروں میل کے راستہ مختصر ہوکر چند سو کلومیٹر ہوگیا، مگر سندھ کی بندرگاہوں اور محل وقوع کے اہمیت برقرار رہی، اسی دور میں کراچی کو عروج حاصل ہوا۔
بیسویوں صدی میں قیام پاکستان کے بعد یہ خطہ سو سال بارہ سو سال کی تاریخ میں محض ایک سو سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر مسلمانوں کے پاس آگیا۔
دنیا کے نئی صف بندی ہوئی تو کمیونسٹ سوویت یونین اور امریکا کی سرکردگی میں سرمایہ دارانہ مغرب کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا، تو ایک بار پھر مغربی پاکستان مرکز نگاہ بن گیا۔ گریٹ گیم کے آغاز سے آج تک اس خطے میں اکھاڑ پچھاڑ کا جو سلسلہ جاری ہے اس میں پاکستان کی اہمیت مسلمہ ہے۔