پاکستان: مالی اور اخلاقی دیوالیہ پن

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آپ نے شاید سن رکھا ہو کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی کچھ طبیب یعنی ڈاکٹرز اپنے مریضوں کے علاج کے لئے موسیقی یا تلاوت قرآن کا استعمال کرتے ہیں، آوازوں کے ذریعے علاج کا یہ طریقہ کچھ نیا نہیں ہے، زمانہ قدیم کے روایتی معالج صوتی اثرات سے واقف تھے اور علاج کے لئے ان کا استعمال کرتے آئے ہیں، ہپناٹزم کے لئے بھی آواز کا استعمال ہوتا ہے، شاید آپ نے یہ بھی سنا ہو کہ پانی پر موسیقی اور تلاوت قرآن کے یکسر مختلف مگر نمایاں اثرات ہوتے ہیں، اسی طرح کسی چیز کو دم کرنے میں بھی الفاظ کا استعمال ہوتا ہے، جنات وغیرہ کو قابو کرنے یا کسی جسم سے باہر نکالنے والے بھی آوازوں، منتر یا آیات یعنی الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ جدید سائنس کے مطابق ہم جو کچھ کہتے ہیں اس سے پیدا شدہ لہریں اور ان کے اثرات ہوا میں تا دیر موجود رہتے ہیں اور ایسے آلات کی کھوج کی جا رہی ہے، جو ماضی قریب یا بعید میں کہے گئے الفاظ کو ہوا یا کسی اور میڈیم یا مادے سے الگ کر کے دوبارہ قابل سماعت بنا سکیں، ایسا ہوگیا تو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں جیسے محاورے اور ہمارے دین میں یوم حساب تمام اعمال کا ریکارڈ حرف بہ حرف پیش کرنے کے تصور کا سائنسی ثبوت فراہم ہو جائے گا۔

اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصد یہ بات ذہن نشین کروانا تھا کہ الفاظ بہت اہم ہوتے ہیں، نہ صرف یہ کہ کہے اور لکھے گئے الفاظ کے بظاہر معنی بہت اہم ہوتے ہیں، بلکہ موقع محل، سیاق و سباق، لہجہ اور انداز بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اور ہر کہے لکھے لفظ کے اثرات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عواقب بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اس لئے جب بھی کوئی تحریر پڑھی یا تقریر سنی جاتی ہے تو ان تمام عوامل کو بھی ذہن نشین رکھنا پڑتا ہے، محض مجرد الفاظ مکمل کہانی نہیں بتاتے، کس نے کہا، کب کہا، کہاں کہا، کس لب و لہجہ میں کہا، اس بات کے اثرات کہاں تک پہنچیں گے، نتائج اور عواقب کیا ہوں گے؟ یہ سب معلوم ہونا اور اس کا فہم بھی ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح کونسی بات کب، کہاں، کس سے اور کس طرح کہنی یا لکھنی ہے اور کونسی نہیں کہنی یا لکھنی یہ بھی اہمیت کی حامل ہے۔ گفتگو کے آداب اور فن تحریر پر اب تک اتنا کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے کہ میں اپنی کم علمی اور تنگ دامانی کے باعث اس میں مزید کوئی اضافہ تو نہیں کرسکتا البتہ منطقی طرز سوچ و فکر اور استدلال کی اہمیت کو اجاگر کرنے کےلئے اس محدود کالم کا سہارا لے رہا ہوں۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ بحیثیت فرد اور معاشرہ ہم نے اب تک منطقی طرز سوچ و فکر اور استدلال کو نہیں اپنایا۔ ہماری اکثر گفتگو مبہم، بے معنی، بے مقصد اور لا حاصل ہوتی ہے، الفاظ کے ساتھ ہماری اسی غیرسنجیدہ روش کے سبب آج ہمارے معاشرے میں کسی علمی، منطقی اور حقیقی مسائل پر گفتگو کے مقابلے پر انتہائی نا معقول اور واہیات قسم کی یاوہ گوئی اور جگت بازی کو زیادہ اہمیت و پذیرائی حاصل ہے۔ آپ کسی کے ساتھ کوئی علمی گفتگو کریں یا تحریر پڑھنے کو کہیں تو کوفت اور بیزاری چہروں اور رویوں سے نمایاں ہوجاتی ہے، مگر کوئی بے ہودہ لطیفہ یا بے مقصد ڈرامہ یا لایعنی قسم کی گفتگو کریں تو گھنٹوں محفل بام عروج پر رہتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ زندگی کے انتہائی سنجیدہ موضوعات بھی جگت بازی کی نذر ہوگئے ہیں، ملک کا انتظام و انصرام چلانا کسی لا ابالی لونڈے بالے کا کام نہیں، اور نہ ہی یہ موضوع کسی مسخرے پن کا متقاضی یا متحمل ہوسکتا ہے، مگر یہاں تو لگتا ہے کہ سیاست و ریاست بھی لاہور کے الحمرا یا ناز تھیٹر کا کوئی تیسرے درجے کا اسٹیج ڈرامہ بن گیا ہے، جس کا نہ کوئی پلاٹ ہے، نہ کہانی، بلکہ سارا زور ہیرا منڈی سے مستعار لی گئی کچھ رقاصاؤں کے لٹکے، جھٹکے اور فیصل آباد مارکہ کچھ جگت بازوں کی چرب زبانی اور بد کلامی پر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک و قوم کی باگ دوڑ مراثیوں کے ہاتھ آگئی ہے۔ (میراثی بہ معنی ورثہ یا پیشہ نہیں بلکہ بے ہودگی و بے راہ روی)

ابھی کل کی بات ہے پاکستان کی معیشت میں شہہ رگ کی حیثیت رکھنے والے وفاقی ادارہ محصولات کے سابق سربراہ جناب شبر زیدی کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ پاکستان مالی طور پر عملاً دیوالیہ ہوچکا ہے۔ یہ بیان نہ صرف اپنے الفاظ کے چناؤ کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس لئے بھی کی یہ بات پاکستان کے ایک انتہائی اہم وفاقی ادارے کا سابق سربراہ اور ماہر معاشیات شبر زیدی کہہ رہا ہے، یہی بات اگر کسی عمر شریف یا معین اختر (مرحوم) نے کہی ہوتی تو یقیناً کچھ اہمیت نہ رکھتی، اسی طرح جناب شبر زیدی کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے کہ جب تبدیلی سرکار اپنی پانچ سالہ مدت میں سے تین چوتھائی یعنی ساڑھے تین سال مکمل کرچکی ہے، اور شبر زیدی اسی حکومت کے اِنہی سالوں میں ایف بی آر کے سربراہ رہے ہیں، اور اگر آپ اس حکومت کے گذشتہ بیالیس ماہ کے دعوؤں کو سامنے رکھیں تو یہ بات مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے، کیوں کہ حکومت اس پورے عرصے میں ملک سے بدعنوانی کے خاتمے، شفاف اور بچت کے اصولوں پر عمل پیرا انتظامیہ، ملکی معیشت کو بحران سے نکال کر درست سمت میں گامزن کرنے، تجارتی خسارے کے خاتمے، غیر ملکی قرضوں کے بڑے پیمانے پر ادائیگی، ملکی لوٹی دولت کی واپسی، ایکسپورٹ، غیرملکی سرمایہ کاری اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں کئی گنا اضافے کے دعوے کرتی رہی ہے، اگر حکومت بشمول وزیر اعظم پاکستان کے بیانات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو ایک دیوالیہ ملک کو اپنے پیروں پر کھڑے ہو جانا چاہیے تھا، مگر اس کے برعکس ایک ترقی پذیر ملک دیوالیہ ہو گیا ہے، یہ بات انتہائی بھیانک، سنجیدہ غور و فکر اور ملکی نظام و انتظامی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیوں کی متقاضی ہے، مگر زیدی صاحب کا یہ بیان اس نقارخانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوا ہے، حکومت سے حزب اختلاف اور اس ملک کے اصل حکمرانوں سمیت تقریباً تمام حلقوں نے اس بیان پر چپ سادھ رکھی ہے، بلکہ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ مریم نواز کے اپنے بیٹے کے نکاح کی تقریب میں پہنے لباس، عمران خان کی مردانہ وجاہت اور مریم نواز کے نسوانی حسن جیسے موضوعات پر مباحث نے دسمبر کی سرد شاموں میں ماحول گرما رکھا ہے، الامان و الحفیظ۔

اور بے حسی کے اس ماحول میں وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت اور سرمایہ کاری کی وہ آواز بھی دب کر رہ گئی جس میں انہوں نے نہ صرف شبر زیدی کے بیان کو حرف بہ حرف دہرایا کہ پاکستان مالی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر کہا کہ حالات اس قدر خراب ہیں کہ اب ملک میں کسی بیرونی سرمایہ کاری کی کوئی امید نہیں۔ یہ بیان اگر حزب اختلاف کی کسی جماعت کے رہنما کی طرف سے آیا ہوتا تو قطعی قابل اعتناء نہ ہوتا مگر حکومتِ وقت کے وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری کے اس بیان سے بھی مقتدر حلقوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، اور اب تک حکومتی یا سرکاری سطح سے اس بیان کا کوئی سنجیدہ رد عمل سامنے نہیں آیا۔

شبر زیدی اور رزاق داؤد کے یہ بیانات اسی حکومت کے وزیر ہوا بازی سرور خان کے پی آئی اے پائلٹس کے بارے میں اس غیر ذمہ دارانہ بیان سے کہیں زیادہ مہلک مضمرات ہوں گے، جس کے بعد دنیا بھر میں پاکستان کی قومی ایئر لائن پر پابندیاں عائد ہو گئیں اور ایک خسارے کا شکار مگر آپریشنل ایئر لائن مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ بعینہ شبر زیدی اور رزاق داؤد کے یہ بیانات پاکستانی معیشت اور ریاست کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ ایسے بیانات اگر کسی مہذب ملک میں کسی حکومتی عہدیدار کی جانب سے آئے ہوتے تو حکومت اور ریاست اب تک ہنگامی اقدامات کا اعلان کر چکی ہوتیں، ملکی سلامتی کے اداروں کے اجلاس منعقد ہو رہے ہوتے، وزیر اعظم تمام تر مصروفیات ترک کر کے معاشی ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر ان بیانات کے نتائج اور عواقب پر غور اور ممکنہ تباہ کن اثرات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی اور تیاری کر رہے ہوتے۔ مگر اس کے برعکس اگر آپ آج بھی پاکستانی حکومت، وزیر اعظم، وزرا کی سرگرمیوں اور میڈیا پر خبروں اور تجزیوں کا جائزہ لیں تو محسوس ہو گا کہ کسی کو ان بیانات کی سنجیدگی کا ادراک ہی نہیں، ان پر نوٹس لینا اور اقدامات کرنا تو دور کی بات ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک سرکس کے بازیگر اور تماش بینوں کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے، وہی ڈگڈگی تماشہ چل رہا ہے، جو بازیگر دکھانا اور جس کے ذریعے تماش بینوں کی جیبیں خالی کروانا چاپتا ہے۔ جب ایک معروف ٹی وی چینل نے گوادر دھرنے کے تیسویں روز اپنے پروگرام میں بلایا تو حق دو گوادر کو تحریک کے بانی و روح رواں مولانا ہدایت الرحمن نے اس بے حسی اور غیر سنجیدگی کا نوحہ ملکی میڈیا پر براہ راست ان الفاظ میں پڑھا کہ ہم پاکستانی میڈیا کے مشکور ہیں کہ انہیں کترینہ کیف کی شادی کی کوریج سے فرصت ملی تو گوادر کے مظلوم عوام کے حقوق کیلئے 30 روز سے جاری دھرنے کی خبر کا خیال آگیا۔

Related Posts