تباہی کے راستے پر!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں اس وقت جس حد تک تباہ کن عدم برداشت کی سیاست عروج پر ہے، اس طرز کی سیاست کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، سیاسی فضا جس قدر زہر آلود ہوچکی ہے، اس کے پیش نظر ہمہ وقت یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ایسی بہت بڑی غلطی ہوجائے، جو پوری قوم کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کرکے رکھ دے۔

 جیسے جیسے سیاسی ماحول تیزی سے خراب ہوتا جا رہا ہے، المیہ یہ ہے کہ بصیرت، حکمت و تدبر کو بروئے کار لانے کے بجائے وفاقی حکومت، پنجاب کے نگراں سیٹ اپ اور پی ٹی آئی کی قیادت تینوں کے سیاسی طرز عمل میں احساس ذمہ داری کا فقدان خطرناک اور پریشان کن حد تک بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، جو سنگین ہوتی صورتحال کا غماز ہے۔

اس وقت اقتدار کے اسٹیج پر جو پارٹیاں نمایاں ہیں، ان میں سب سے زیادہ ذمے داری کا بوجھ مسلم لیگ (ن) اور اس کے بعد پنجاب میں نگراں حکومت پر ہے۔ انہیں بڑے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مگر بد قسمتی سے ہو اس کے بر عکس رہا ہے، یہ دونوں بجائے حکمت و تحمل سے کام لینے کے بجائے پہلے سے خار کھائی ہوئی پی ٹی آئی کی قیادت کو مسلسل مشتعل کرنے میں ہی لگی ہوئی ہیں اور اس سارے عمل میں یہ بھی واضح دکھائی دیتا ہے کہ یہ اپنے اختیارات کے استعمال میں بار بار حد سے تجاوز کر رہی ہیں، جس کی کسی صورت تحسین تو کیا حمایت تک نہیں کی جاسکتی۔

گزشتہ ہفتے لاہور اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے سیاسی سرگرمیوں کے خلاف جس انداز سے جارحانہ کارروائیاں کیں، اس سے ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن اب سیاست کے دائرے سے نکل کر ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ انا کی ہمہ گیر جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس جنگ سے یہ جماعتیں آخر کیا چاہتی ہیں؟ کیا ن لیگ والوں کو اندازہ نہیں کہ وہ ملک کی سب سے بڑی مقبول پارٹی کے پرجوش نوجوان اور خواتین کارکنوں کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کرکے ریاست کو ہی کمزور کر رہے ہیں۔ جس جنگ میں انہوں نے ملک کو دھکیلا ہے، کیا اس سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی ہے ان کی نگاہ میں؟ بظاہر تو ایسا دکھائی نہیں دیتا۔

اسی طرح کیا سابق وزیراعظم عمران خان بھی عقل و حکمت پر گرفت مکمل طور پر کھو چکے ہیں؟ کیا انہیں اندازہ نہیں کہ وہ اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے نام پر اپنے کارکنوں اور قوم کے نوجوانوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے جس طرح لڑا رہے ہیں، وہ کس قدر خطرناک عمل ہے اور اس سے ملک کس تیزی سے کسی بڑے خونی تصادم کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ کیا انہیں اس بات کا احساس ہے کہ چاہے بالارادہ ہو یا بلا ارادہ، ان کا طرز سیاست ان کی پارٹی کو ایک مشتعل اور جنونی ہجوم کی خصوصیات میں ڈھال رہا ہے؟ یہ کیسی خودغرض قیادت ہے جو ریاست کے ساتھ بے معنی جھگڑوں میں نوجوانوں اور خواتین کو دوبدو کرکے ان کی زندگیاں اطمینان سے خطرے میں ڈال رہی ہے۔

خاموش اکثریت اس تناؤ سے اکتا چکی ہے۔ انا کی اس جنگ میں عام لوگ آخر کب اذیتیں جھیلیں؟ دونوں پارٹیوں کو اپنی ہٹ دھرمی پر نظر ثانی کرنی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ ان کے پاس حکومت کرنے کے لیے راکھ کے سوا کچھ نہ بچ جائے اور سب کچھ جل کر بھسم ہو جائے۔

Related Posts