قازقستان کا نیا منظر نامہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یکم ستمبر کو قازقستان کے عوام سے اپنے صدارتی خطاب میں  صدر قاسم جومارت توکایف نے ملک میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر سے قبل قومی ریفرنڈم کی تجویز پیش کی ہے۔

دریں اثناء ایک پریس بریفنگ میں قازقستان کے سفارت کاریرژان کِسٹافن نے کہا کہ یہ ملک کے لیے ایک نیا نمونہ ہوگا۔ نیوکلیئر پاور پلانٹ بنانے کا خیال اچھوتا نہیں  بلکہ قازقستان میں حالیہ برسوں میں اکثر بجلی کی بندش ہوتی رہی ہے۔ الماتے اور قازقستان کے متعدد علاقوں میں جنوری 2022 کے آخر میں بجلی کے مسائل کو نیو کلیئر پلانٹ کے قیام کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ بہت امکان ہے کہ مستقبل میں یہ مسائل مزید بڑھ جائیں گے جبکہ یہ ملک پہلے ہی بجلی کی شدید قلت کا سامنا کر رہا ہے اور اس منصوبے کے نفاذ سے قازقستان کو بجلی کی درآمد کو روکنے اور پڑوسی ممالک پر کم انحصار کرنے کا موقع ملے گا۔ عام طور پر پوری دنیا میں پرامن ایٹمی طاقت کا استعمال زور پکڑ رہا ہے۔ آج جوہری توانائی عالمی توانائی کا سب سے اہم ذیلی شعبہ ہے اور عالمی بجلی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

قازقستان اپنے صدر قاسم جومارت توکایف کی قیادت میں اپنی معیشت کو نئی شکل دے رہا ہے اور قومی ترقی، اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور دوطرفہ و کثیر جہتی تجارت اور صنعتی تعاون کو تلاش کرنے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں قازقستان نے تقریباً تمام علاقائی فورمز میں میزبانی یا اپنی فعال شرکت کے ذریعے مرکزی مقام حاصل کیا ہے۔ تمام صنعتی اور تجارتی اقدامات کیلئے توانائی کی کمی کا شکار قازقستان کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی کی ضرورت ہے۔ درحقیقت صدر توکایف کا یہ ایک راست فیصلہ ہے کہ وہ ملک کے عوام کے پاس جا کر ریفرنڈم کے ذریعے نیو کلیئر پاور پلانٹ کیلئے حمایت حاصل کریں۔ راقم الحروف کویقین ہے کہ قازقستان کے عوام صاف توانائی کے شعبے کی ترقی کیلئے منظر نامے کی تبدیلی کا خیر مقدم کریں گے۔ صاف توانائی کے دیگر ذرائع بھی تلاش کیے جائیں گے۔

تاہم اس سہولت کی تعمیر کی فزیبلٹی کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ قازقستان کی جانب سے ابھی تک نیو کلیئر پاور پلانٹ نہ بنائے جانے کی ایک وجہ جوہری تجربات کے نتیجے میں تابکار اثرات سے منسلک منفی تجربہ ہے۔ یرژان کِسٹافن کا کہنا ہے کہ سوویت دور میں 456 جوہری تجربات کیے گئے۔ قازق عوام کو آزمائشوں کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا اور اب ان میں سے کچھ نیوکلیئر پاور پلانٹ کے خیال کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں لیکن یہ جوہری تجربات سے مختلف ہے۔

تاہم قازقستان کی دنیا میں یورینیم پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملک کے طور پر اپنی جوہری پیداوار یعنی بجلی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں عوامی سماعتوں کا سلسلہ جاری رکھنا اور اس مسئلے پر جامع اور وسیع بحث کی ضرورت ہے۔

ایڈانا تستانووا جو قازق شہری اور قازق حکومت کی اسکالرشپ کے تحت ماسکو اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات میں تعلیم حاصل کرنے والی قانون کے چوتھے سال کی طالبہ ہیں، تحریر کرتی ہیں کہ ”قازق معاشرے میں  آئی اے ای اے کی رکن ریاست کے طور پر قازقستان کی اہلیت کے بارے میں بھی سوالات تھے۔ اس منصوبے میں شامل ہونے کیلئے اور 1970 کے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی ممکنہ خلاف ورزی کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے تاہم قازقستان نے جوہری بنیادی ڈھانچے کے جامع جائزے پر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے مشن کی سفارشات کو لاگو کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں۔

فی الحقیقت قازقستان نے حال ہی میں فوسل ایندھن پر ملک کا انحصار کم کرنے، توانائی کے توازن کو متنوع بنانے اور  کاربن  کے اخراج کو کم کرنے کیلئے جوہری توانائی کے استعمال کے ممکنہ مفروضے کو بطور تجویز پیش کیا۔ مزید برآں مارچ 2023 میں ایک جامع نیوکلیئر انفراسٹرکچر اسسمنٹ مشن نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ کا دورہ کیا، تاکہ جوہری توانائی کے پروگرام کے نفاذ کیلئے شعوری طور پر اقدامات اتھائے جائیں اور  ملک کی تیاری کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس کے بعد آڈٹ کے نتائج مثبت نکلے اور قازقستان میں جوہری توانائی کی ترقی کیلئے جن شعبوں میں بہتری کی ضرورت تھی، ان کی نشاندہی کی گئی۔

اپنی تقریر میں صدر قاسم جومارت توکایف نے نئے منظر نامے کے ایک اور انتہائی اہم پہلو پر زور دیا، اور وہ تھا ”قازقستان کے فوجی صنعتی کمپلیکس کو ہر ممکن طریقے سے مضبوط کرنا۔“ قازق پارلیمنٹ کے چیمبرز کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اس بات پر زور دیا کہ ملک کے عسکری و صنعتی کمپلیکس کی ہمہ جہت مضبوطی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ان کے الفاظ مں اہم ہدف یہ ہے کہ ”لوکلائزیشن کے زیادہ حصہ کے ساتھ ایک پیداواری سائیکل بنایا جائے جس سے درآمدی ترسیل پر انحصار کم ہو سکے۔“

دراصل قازقستان کے پڑوس اور خطے میں بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال کئی دفاعی اور حفاظتی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ ان میں سے ایک بشمول بکتر بند گاڑیاں، ڈرون اور پورٹیبل آتشیں اسلحہ قازق فوج کو جدید ترین ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان سے لیس کر سکتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ”جدید ترین ٹیکنالوجیز کی منتقلی اور نئے پلانٹس کی لوکلائزیشن پر کام جاری رکھا جائے۔“ قازقستان ایک خصوصی فنڈ تشکیل دے سکتا ہے جس کا مقصد ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی ترقی کے لیے ”ملکی اداروں کی براہ راست مالی مدد کے طریقہ کار  وضع کرنا ہے۔“

لیکن چشمِ فلک فوجی صنعتی کمپلیکس کے معاشی اثرات  دیکھ چکی ہے جس سے کبھی بھی قوموں کی خدمت نہیں کی گئی بلکہ ایسے کمپلیکس سماجی و اقتصادی ترقی، تجارت اور سیاحت پر سمجھوتوں کی بہت زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔ قازقستان کو این پی پی یا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس میں جاتے وقت دیگر ممالک کی کیس اسٹڈیز کا بہت احتیاط سے جائزہ لینا پڑتا ہے۔ دونوں طاقتیں پرامن دفاعی ضروریات اور عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام آئیں گی۔

نئے قازقستان کے نمونے میں اقتصادی ترقی کے عمل میں تمام جماعتوں کی شرکت کو یقینی بنا کر سیاسی تبدیلی بھی شامل ہے۔ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے سفیر یرژان کِسٹافن کا خیال ہے کہ قازقستان پاکستان سے سیکھ سکتا ہے اور ایک جامع تعاون کے معاہدے سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔ اس سے غذائی اجناس کی درآمدات پر انحصار کم ہوگا۔

قازقستان نے اپنے نوجوانوں کو انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز (آئی سی ٹی) میں شامل کرنے کا ایک بھرپور منصوبہ بھی بنایا ہے۔ قازقستان کو تجارتی راہداری کا مرکز بنانے سے پڑوس میں مقامی لوگوں اور کاروباری برادریوں کیلئے کافی مواقع میسر آئیں گے۔ پاکستان قازقستان کے نئے وژن اور منظر نامے میں فعال دوطرفہ حکمت عملی اور مصروفیت کے ساتھ اچھا اقتصادی حصہ بھی حاصل کر سکتا ہے ۔

Related Posts