قدرتی گیس اور ناشکرے پاکستانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بھارت میں قدرتی گیس، دنیا کے بیشتر دیگر ممالک کی طرح، ایک جنس نایاب ہے، ملک کی کل آبادی کا نصف، یعنی تقریباً 70 کروڑ (پاکستان کی آبادی کا تقریباً تین گنا)، اب بھی بایوماس ( یعنی لکڑی، جانوروں کا فضلہ، ٹھوس کچرا اور گھاس پھونس) جلا کر حرارت حاصل کرتا ہے۔

بھارت میں اس وقت صرف 17,000 کلومیٹر گیس پائپ لائن موجود ہے۔ جبکہ پاکستان میں 143,000 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن گھر گھر گیس پہنچاتی ہے۔ بھارت ایک طویل عرصے سے اپنی آبادی کو ایل پی جی پر تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو کہ ریاستی ملکیتی کمپنیوں جیسے بھارت گیس، انڈین گیس، ایچ پی گیس وغیرہ کے ذریعے سلنڈروں میں فراہم کی جاتی ہے۔

ایک بھارتی خاندان کو سال میں صرف 12 ایل پی جی سلنڈر رعایتی نرخ پر خریدنے کی اجازت ہے، یعنی صرف ایک سلنڈر فی مہینہ۔ اس رعایتی نرخ پر ماہانہ ایک سلنڈر حاصل کرنے کے لیے ایک بھارتی شہری کو کم از کم اکیس مختلف دستاویزات فراہم کرنا پڑتی ہیں، جن میں شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، راشن کارڈ، جائیداد کی دستاویزات وغیرہ شامل ہیں، اور 2200 بھارتی روپے (تقریباً 7621 پاکستانی روپے) بطور سیکیورٹی ڈپازٹ جمع کروانا اور بسا اوقات طویل انتظار بھی کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ایل پی جی سلنڈر ہر جگہ آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے.

گھریلو صارفین اور صنعتوں کو ایل پی جی پر تبدیل کرنا ہندوستان کے لئے کتنا اہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے وزیر اعظم خود ایل پی جی سلنڈرز کے فروغ کےلئے تشہیری مہم چلاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ایل پی جی کا استعمال کتنا فائدہ مند ہے۔ (قبل ازیں بھارتی وزیراعظم گھروں میں بیت الخلاء کی تنصیب کے لیے بھی مہم چلاتے رہے ہیں، تصور کریں کہ یہ بھی کتنا اہم مسئلہ رہا ہوگا، مودی جی کی جانب سے کئی سال تک صاف ستھرا بھارت (سواچ بھارت) کی مہم چلانے کے باوجود ایک اندازے کے مطابق 10% بھارتی آبادی اب بھی کھلے میں ہگ اور مُوت رہی ہے)۔

ہندوستان میں ایل پی جی کی قیمت بھی حکومت متعین کرتی ہے اور اس کا براہ راست تعلق بین الاقوامی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت سے ہوتا ہے، کیونکہ توانائی کے شعبے میں بھارت کا تمام تر انحصار درآمدات پر ہے۔ اور ایل پی جی کی قیمت ہر ریاست میں مختلف ہو سکتی ہے، دہلی میں گھریلو استعمال کے لیے 14.2 کلوگرام کے ایل پی جی سلنڈر کی موجودہ رعایتی قیمت 1103 بھارتی روپے (پاکستانی روپوں میں 3790) کے لگ بھگ ہے، جبکہ کھلی منڈی میں یہ اس سے بھی مہنگا یعنی 1450 بھارتی روپے کے آس پاس ہے، جس کا مطلب ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے رعایتی نرخ پر فراہم کی جانے والی گیس کا نرخ فی کلو 267 پاکستانی روپے کے برابر ہے، جو کہ پاکستان میں اوپن مارکیٹ ایل پی جی نرخ 278 کے قریب تر ہے۔

لیکن پاکستان میں اکثریتی ابادی پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کی جانے والی قدرتی گیس استعمال کرتی ہے جو کہ اتنی سستی ہے کہ اس کا ایل پی جی سے کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں، ایک عام آدمی کی زبان میں اگر بات کی جائے تو دس لاکھ برطانوی تھرمل یونٹ یا ایک ایم ایم بی ٹی یو قدرتی گیس، جو پاکستان میں کم از کم 151 روپے اور زیادہ سے زیادہ 250 روپے میں فراہم کی جاتی ہے، اس سے ملنے والی حرارتی توانائی 21.5 کلوگرام ایل پی جی سے ملنے والی توانائی کے برابر ہوتی ہے۔ اور ایل پی جی کے معیار کے مطابق اس ایک ایم ایم بی ٹی یو قدرتی گیس کی قیمت 5740 پاکستانی یا 1670 بھارتی روپے ہونی چاہئے۔

امید ہے کہ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم پاکستانی کتنے ناشکرے ہیں، نہ صرف یہ کہ ہمیں دنیا کی سستی ترین گیس میسر ہے بلکہ یہ گیس پائپ لائن کے ذریعے براہ راست ہمارے باورچی خانے میں فراہم کی جاتی ہے، نہ گیس سلنڈر لانے لے جانے کی پریشانی اور نہ پھٹنے کا خطرہ۔

یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہم پاکستانی اپنی قدرتی گیس کی اس قیمت اور اس سہولت سے فراہمی کو حقیر یا معمولی سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم نے قدرت کے اس عظیم تحفے اور حکومت کی فراہم کردہ اس بیش قیمت سہولت کا بے دریغ مسرفانہ استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے آج ہمیں قدرتی گیس کی قلت کا سامنا ہے، اور جب حکومت اس قلت کو مخصوص گھنٹوں میں لوڈ شیڈنگ کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس انتظامی عمل پر ہم اس قدر شور و غوغا برپا کرتے ہیں کہ الامان۔ بات مطالبہ اور مذمت سے بڑھ کر اپنے ملک کی برائی، لعن طعن اور تذلیل و تحقیر تک پہنچ جاتی ہے، یہ سوچے سمجھے یا اس بیش بہا نعمت کی قدر کئے بغیر کہ ہم دنیا کے ان چند خوش قسمت ترین ممالک یا قوموں میں سے ایک ہیں جنہیں قدرتی گیس اس قدر ارزاں نرخ پر ان کے گھر میں پائپ لائنوں کے وسیع ترین نیٹ ورک کے ذریعے باسہولت فراہم کی جاتی ہے۔

آئیے عہد کریں کہ اپنے ملک میں ہر اچھی چیز کی تعریف کریں گے، اور بلا جواز ملک کو کوسنے، اس کی تحقیر کرنے اور ہر بات پر چھوٹے بچوں کی طرح چیخنے چلانے کے بجائے حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کا مظاہرہ کریں گے۔۔

Related Posts