ندیم بابر کا اربوں کا گھپلا، اصل ذمہ دار کون؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جنوری 2021 میں پاکستان میں فرنس آئل اور ڈیزل سے 1020 گیگاواٹ بجلی پیدا کی گئی جبکہ ایل این جی سے 960 گیگاواٹ، حالانکہ اس وقت سستی ترین ایل این جی دستیاب تھی، ایل این جی سے بجلی کی پیداوار پر فی یونٹ 8 روپے لاگت آتی ہے جبکہ فرنس آئل سے 14 روپے اور ڈیزل سے 19 روپے لاگت آتی ہے اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایل این جی ٹرمینلز پر اپنی مجموعی استعداد کی 60فیصد ایل این جی موجود تھی۔

یعنی نہ صرف سستی ترین ایل این جی دستیاب تھی بلکہ وافر مقدار میں دستیاب تھی، کوئی کمی نہیں تھی، تو پھر سوال بنتا ہے کہ ایل این جی کے بجائے فرنس آئل اور ڈیزل سے بجلی پیدا کرنے کا فیصلہ کس نے اور کیوں کیا؟ سوال بنتا ہے کہ اس فیصلے سے کس کو اور کتنا فائدہ ہوا؟ اور یقین جانیں یہ پاکستان کی تاریخ کا میگا اسکینڈل ثابت ہوگا، اتنی بڑی کرپشن کہ اس کے سامنے آٹا، چینی اور پٹرولیم جیسے میگا اسکینڈلز ہیچ دکھائی دیں گے۔

یاد رہے کہ یہ ذکر جنوری 2021 کا ہے، عمران خان کو وزیراعظم بنے اڑھائی سال ہوچکے ہیں، اور ان کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم و توانائی ندیم بابر ہیں جو کہ پاکستان کی ایک معروف اور بڑی پٹرولیم کمپنی کے مالک ہیں۔

یہ وہی ندیم بابر ہیں جن کی اپنی کمپنی کے خلاف 2019-2020 کے پٹرولیم بحران میں ملوث ہونے کی ایک سال پہلے شروع ہونے والی تحقیقات نہ صرف مکمل ہوچکی تھیں بلکہ کئی ماہ پہلے یہ تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جاچکی تھی، اور حکومت کی اپنی ہی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ندیم بابر کی کمپنی پٹرولیم بحران میں ملوث تھی اور اس کمپنی نے بحران سے اربوں روپے کا فائدہ اٹھایا تھا۔

اگر 2019-2020 کا پٹرول بحران آپ کی یاد میں دھندلا گیا ہے تو یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت اسمان سے زمین پر آگئی تھی اور پٹرول عملا مفت مل رہا تھا، بلکہ دنیا کے کئی ممالک پٹرول خریدنے والے کو جہاز کا کرایہ بھی ادا کررہے تھے، مگر وزیراعظم عمران خان اور ان کے معاون خصوصی کی عنایات خصوصی سے پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھیں، یعنی حکومت اور مشیر خاص دونوں کی پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں تھا، جس پر عوام بلبلا اٹھے اور حکومت پر تنقید جب حد ہے بڑھ گئی تو کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کردیا۔

عوام نے ابھی جشن کی تیاری کی ہی تھی کہ ان کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب وہ پٹرول لینے پٹرول پمپس پر پہنچے تو وہاں تالے پڑے تھے، پٹرول ندارد ہوچکا تھا، بحران نے شدت اختیار کرلی تو پٹرول حکومتی نرخ سے دگنا پر فروخت ہونے لگا اور یوں عوام کو اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے پر انہیں ایسی سزا دی گئی کی عوام کو لینے کے دینے پڑ گئے، لوگ سڑکوں پر نکلنے لگے تو حکومت نے تحقیقات کا اعلان کیا اور پھر تحقیقات میں ندیم بابر کی کمپنی سمیت متعدد کمپنیوں کو کارٹیلنگ کرنے اور مصنوعی بحران پیدا کرکے اربوں روپے سمیٹنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

ان ہی دنوں میڈیا پر یہ خبریں بھی آ چکی تھیں کی ندیم بابر نے اثاثہ جات کے گوشواروں میں غلط بیانی کی اور وہ بہت سی کمپنیز کے مالک یا حصہ دار تھے جنہیں ظاہر نہیں کیا گیا۔ ان کی کئی کمپنیاں پٹرولیم اور توانائی کے شعبوں میں تھیں جس سے ان کا بطور معاون خصوصی برائے پٹرولیم و توانائی ہونا مفادات کا براہ راست ٹکراؤ تھا۔

اور اس سے بھی پہلے جب ندیم بابر کو معاون خصوصی لگایا جارہا تھا تو یہ بات میڈیا ریکارڈ پر لاچکا تھا کہ وہ مفادات کے ٹکراؤ کے سبب اس عہدے کے لئے موزوں انتخاب نہیں اور ان کا ماضی بھی داغ دار ہے، یہ بات بھی ریکارڈ پر تھی کہ ڈی ایچ اے کراچی کے “کوجین” منصوبے سمیت ندیم بابر کے متعدد منصوبے فراڈ تھے جن سے سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔

پھر سوال یہ بنتا ہے کہ ایسے واضح داغدار کردار کے باوجود ندیم بابر کو معاون خصوصی کس نے اور کیوں بنایا؟ سوال یہ بنتا ہے کہ مفادات کے واضح ٹکراؤ کے باوجود، جس کی عمران خان اپوزیشن میں رہتے ہوئے کھلم کھلا مخالفت کرتے تھے، ندیم بابر کو پٹرولیم و توانائی ہی کے شعبے کا معاون خصوصی کیوں بنایا گیا؟ اور پھر سوال یہ بنتا ہے کہ پٹرولیم اسکینڈل 2019-2020 کی تحقیقات میں ان کی کمپنی کا بحران میں ملوث ہونا ثابت ہونے کے باوجود ندیم بابر کو معاون خصوصی کے عہدے پر کس نے اور کیوں برقرار رکھا؟

اگر ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ ایسا وزیراعظم عمران خان کی مرضی اور منشا سے ہوا تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ کیوں نہ وزیراعظم کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں کیوں کہ بادی النظر میں یہ سب لوٹ مار ان کی مرضی اور منشا سے ہوئی۔

اور اگر متذکرہ بالا ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ عمران خان اس سے بری الذمہ ہیں، یہ کسی اور کی کہنے پر ہوا تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ وہ کسی اور کون ہے؟ وہ کون ہے جس کے فیصلوں کی توثیق خود وزیراعظم کرتے ہیں، خواہ رضامندی یا اضطرار سے کرتے ہوں؟ اور وہ کون سی طاقت ہے جس کے کہنے پر وزیراعظم نے پاکستان کے بدعنوان ترین لوگوں کو اپنی کابینہ کا حصہ بنایا ہوا؟ یہ مافیاز وزیراعظم کی ناک کے نیچے لوٹ مار کرتے ہیں مگر وزیراعظم انہیں ہٹانے سے معزول ہیں، اور جب لوٹ مار کی انتہا ہوچکتی ہے تو رسما انہیں عہدوں سے علیحدہ کردیا جاتا ہے۔

اور سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کیا ندیم بابر اور جہانگیر ترین جیسے بدعنوان وزیروں، مشیروں اور معاونین کو عہدے سے ہٹا دینا ہی کافی ہے یا ان کے خلاف کاروائی بھی ہوگی؟ اور سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کیا ان سے لوٹ ہوئی دولت مکمل طور پر واپس بھی لی جاسکے گی یا نیب کے کسی بند کمرے میں پلی بارگین کرکے انہیں قانون کے شکنجے سے آزادی اور کسی ممکنہ سزا سے قانونی تحفظ دے دیا جائے گا؟

سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا پاکستانی قوم کو کبھی بھی ایسے اور ان جیسے اور بہت سے سوالوں کا جواب مل سکے گا؟ یا ہماری صدا ہمیشہ کی طرح نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوگی اور حقیقی احتساب کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ سکے گا۔

Related Posts