کیا سرعام پھانسی دینے سے بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات میں کمی آئیگی ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

public hanging of convicted child killers and rapists

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے پے درپے واقعات نے قوم کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کردیا ہے،عوام کے دلوں میں خوف پیدا ہوچکا ہے،لوگوں نے ڈر کے مارے بچوں کو گھروں سے باہر نکالنا چھوڑدیا ہے۔ باہر گئے بچے کو ذرا سی دیر ہو جائے تو والدین پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی اور قتل بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سرِ عام پھانسی دینے کے حوالے سے قرارداد منظور کرلی گئی ہے۔پی ٹی آئی کے علی محمد خان کی قرارداد پر ووٹنگ کے دوران اراکینِ قومی اسمبلی کی طرف سے مثبت ردِ عمل دیکھنے میں آیااور قراردادِ کثرتِ رائے سے منظور کی گئی۔

پاکستان میں سزائے موت
سعودی عرب، چین ، امریکا اور ایران کے بعد پاکستان پانچواں بڑا ملک ہے جہاں سزائے موت کا قانون موجود ہے۔سزائے موت پاکستان میں ایک قانونی فعل ہے تاہم 2008ء میں سابق صدر آصف علی زرداری نے سزائے موت پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ 16 دسمبر 2014کو سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد وزیر اعظم محمد نواز شریف نے دہشت گردوں کے لیے تخصیص کرتے ہوئے یہ پابندی اٹھا دی تھی اور مارچ میں 2015 کو یہ پابندی مکمل طور پر ختم کردی گئی تھی۔

پاکستان میں سزائے موت تعزیرات پاکستان میں مذکور سزاؤں میں سب سے بڑی سزا ہے۔ شریعت اسلام نے قتل کے بدلے میں قتل کی سزا کو قصاص کہا ہے لیکن جہاں قصاص کا نفاذ نہ ہوگا وہاں یہ سزا بطور تعزیر کے دِی جائے گی جبکہ پاکستان میں سزائے موت کے لیے پھانسی کا طریقہ ہی مروج ہے۔

پھانسی کے حوالے سے قانون
پاکستان کا آئین،فوجداری قوانین اور1994میں سپریم کورٹ کا فیصلہ سرعام پھانسی کی اجازت نہیں دیتا کسی مجرم کو سرعام پھانسی دینا پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 14(1) کے منافی ہے تاہم اسپیڈی ٹرائل کی خصوصی عدالتوں کا ایکٹ مجریہ1992ءپاکستان کی تاریخ کا واحد قانون تھا جس کے سیکشن10میں حکومت کوکسی شخص کو پھانسی دینے کیلئے جگہ کا تعین کرنے کا اختیار دیا گیا تھاکہ مجرم کو پھانسی دینے کیلئے جیل سے باہرکسی چوراہے یا میدان کا تعین کرسکتی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اس قانون کے تحت بھی سرعام پھانسیاں روک دی گئی تھیں،اب یہ قانون بھی تحلیل ہوچکا ہے۔پاکستان میں اس وقت کوئی ایسا قانون رائج نہیں جو سرعام پھانسی کی اجازت دیتا ہوجبکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ابھی تک نافذالعمل ہے۔اس بابت 1994ءایس سی ایم آر 1028کو بطور حوالہ دیکھا جاسکتا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کو سرعام پھانسی دینے کا حکم
سنگین غداری کیس میں گزشتہ سال دسمبر میں خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت دیتے ہوئے سرعام پھانسی دینے کا حکم دیا تھا جبکہ جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ اگر پرویز مشرف فوت ہوگئے تو ان کی لاش ڈی چوک لائی جائے جس کے بعد پورے ملک میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھاتاہم حکومت نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی اور اقوام متحدہ نے بھی فیصلے کو نامناسب قراردیا تھا۔

دنیا میں سزائے موت دینے کے طریقے
یورپ میں سزائے موت پر پابندی ہے جبکہ چین، امریکا ،ویتنام میں سزائے موت کے مجرم کو زہر کا انجکشن لگاکریافائرنگ کر کے مارا جاتا ہے ،انڈونیشیااور تائیوان میں بھی فائرنگ سے مجرم کی زندگی ختم کی جاتی ہے۔سعودی عرب میں جنسی زیادتی ودیگر سنگین جرائم کرنے والے مجرم کا سرقلم کیا جاتا ہے۔پاکستان، بھارت، ایران، عراق ،بنگلا دیش اور جاپان میں پھانسی کے ذریعے سزائے موت دی جاتی ہے۔

سیاسی رہنمائوں  اور ستاروں کی رائے
پیپلز پارٹی نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ سرعام پھانسی انتہائی سخت سزا ہے،قتل کے جرم کی سزا پھانسی ہونی چاہئے۔وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے قرارداد کو وفاقی وزیر علی محمد خان کا انفرادی عمل قرار دیا جبکہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے قرارداد کوانتہا پسندانہ سوچ کاعکاس قراردیا ہے جبکہ وفاقی وزیرقانون بیرسٹر فروغ نسیم کاکہنا ہے کہ سرعام پھانسی اسلامی تعلیمات اورآئین کے منافی ہے اورسپریم کورٹ 1994 میں سرعام پھانسی کوغیرآئینی قراردے چکی ہے ،آئین وشریعت کیخلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے۔مسلم لیگ ن کے رہنماء وسابق گورنر سندھ نے بھی سرعام پھانسی کی مخالفت کی ہے جبکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی اور معروف اداکارہ مہوش حیات بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کے حامی ہیں۔

عوام کا ردعمل
حکومت کی جانب سے سرعام پھانسی کی مخالفت نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، قصور میں جنسی زیادتی کے بعد قتل ہونیوالی معصوم زینب کے والد کا کہنا ہے کہ بچوں سے زیادتی اورقتل کے مجرم رعایت کے مستحق نہیں، سرعام پھانسی کا فیصلہ زبردست اقدام ہے ۔انہوں نے زینب کے قاتل کو بھی سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا تھا جو کہ ردکردیا گیا تھا۔بل کی مخالفت کے کرنیوالوں کیخلاف سوشل میڈیا پر بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا، ایک صارف کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری جیسے لوگ معاشرے کو کبھی ٹھیک نہیں ہونے دیں گے،وزیراعظم کو سوچنا ہوگا کہ ان کے ساتھ کون مخلص ہیں۔ایک صارف نے اپنے پیغام میں لکھا کہ اسلام نے تو سر عام سزائیں دینے کا حکم دیا ہے پھر فواد چوہدری کیسے کو شدت پسندی کہہ رہے ہیں ، ایک صارف نے فواد چوہدری کو 21 توپوں کے سامنے کھڑا کرکے سلامی دینے کی تجویز دی ہے۔ایک صارف کاکہنا ہے کہ فواد چوہدری انسانیت سے گرے لوگوں کے حق میں کھڑے نا ں ہو ں ورنہ عوام جاگ گئے تو آپ دوبارہ اسمبلی کا منہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ایک صارف نے کہا کہ فواد چوہدری تحریک انصاف میں رہ کر بلاول اور پیپلز پارٹی کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہے، اس فصلی بٹیرے کا اگلا ٹھکانہ پھر پیپلز پارٹی ہےلیکن رکنا اس نے وہاں بھی نہیں۔ایک صارف نے دعا مانگی کہ یا اللہ عمران خان کو شیریں مزاری اور فواد چوہدری سے چھٹکارا دلا دے ۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے پاکستان میں قومی اسمبلی سے بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کے حوالے سے قرارداد کی مذمت کی گئی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر عمر چیمہ کاکہنا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل بھیانک جرائم ہے تاہم سزائے موت اس کا حل نہیں ۔ سرعام پھانسی دینا ناقابل قبول اور مہذب معاشرے میں اس کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔

پاکستان میں سرعام پھانسی ہوچکی ہے
یہاں اوربھی سیکڑوں لوگ ہیں جو اس بل کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں  کیونکہ معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ بیشتر کیسز میں ملزمان معمولی سزائوں کے بعد چھوٹ جاتے ہیں جبکہ چند ایک کیسوں میں ہونیوالی سزائوں سے معاشرے کے ناسوروں کو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن 1981 میں سابق صدر جنرل (ر) ضیاء الحق کے دور میں پپو نام کے ایک بچے کو لاہور میں بدفعلی کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا،جلد پپو کے مجرموں کو گرفتار کرکے سرعام پھانسی دی گئی اور ان کی لاشیں شام تک رسوں سے لٹکتی رہیں، اس واقعے کے 10سال تک لاہور میں بچوں سے بدفعلی کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔

Related Posts