پاکستان میں “میرے عزیز ہم وطنو” والا سلسلے اب ختم ہونا چاہیے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جسٹس قاضی فائز عیسی کا چیف جسٹس کو خط، سپریم کورٹ کیلئے نامزد 3 ناموں پر اعتراض اٹھا دیا
جسٹس قاضی فائز عیسی کا چیف جسٹس کو خط، سپریم کورٹ کیلئے نامزد 3 ناموں پر اعتراض اٹھا دیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس نظرثانی درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیا، پاکستان اورسپریم کورٹ کی تاریخ کاسب سے متنازع فیصلہ ذوالفقاربھٹو کیس کا تھا،میرے عزیز ہم وطنو والے سلسلے کو اب ختم ہونا چاہیے، جسٹس فائزعیسیٰ نے ذاتی حیثیت سے عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات پردلائل دیے۔

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس نظرثانی درخواست پر سماعت کے موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت کو بتایا کہ پبلک میں میری مٹی پلید ہورہی ہے،میرے لئے اہم کیس کا براہ راست نشرہونا ہے جس پرجسٹس عمرعطا بندیال نے جسٹس فائزعیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اصل کیس نظرثانی درخواستوں کا ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ٹیکنالوجی سے انقلاب آئے ہیں، دنیا کہتی رہتی ہے،دیکھنے والی ذات دیکھ رہی ہے،آپ کام جاری رکھیں، کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے پرمشاورت ضروری ہے ، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومت نہیں چاہتی یہ کیس مکمل ہو، یہ کیوں اس کیس سے بھاگ رہے ہیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ پچھلی بار بھی کیس میں وکیل بننے کیلئے وزیرقانون نے استعفا دیا تھا،نظرثانی کیس میں وزیر قانون خود پیش ہوں گے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے عدالت کو بتایا کہ میری موجودہ درخواست نظرثانی درخواستوں سے زیادہ اہم ہے،میڈیا نے وہ رپورٹ کیا جو ان کا دل کیا، میں کل کی نشرہونے والی خبروں سے اتفاق نہیں کرتا،میں اپنے ملک کا مستقبل ایسا نہیں دیکھنا چاہتا۔

انہوں نے کہا کہ ایک فوجی آمر ٹی وی پر آکر کہتا ہے “میرے عزیز ہم وطنو”۔میرے عزیز ہم وطنو والے سلسلے کو اب ختم ہونا چاہیے، براہ راست عدالتی کارروائی سےڈسپلن میں بہتری آئے گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان اورسپریم کورٹ کی تاریخ کاسب سےمتنازع فیصلہ ذوالفقار بھٹو کیس کا تھا،بھٹوکیس میں اختلافی نوٹ والےجج نےکہااکثریتی فیصلہ فوجی حکومت کےدباؤ میں تھا۔

جسٹس فائزعیسیٰ نے سماعت کے دوران عالمی آزادی صحافت کے اعدادوشمار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان نے آزادی صحافت کے چارٹر پر دستخط کیے تھے، آزادی صحافت پر پاکستان کے اعدا دوشمار دیکھ کر میرا سرشرم سے جھک گیا، اس وقت 180 ممالک میں آزادی صحافت کے معاملے پر پاکستان کا نمبر147 ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے ایک پٹیشنر جج کے طور پر موجود ہوں،عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات کا حق مجھے نہیں عوام کو دیاجائےگااس پرجسٹس منظورملک نے کہا کہ آپکی باتیں فیصلےمیں آگئیں توکل وکیل آپ کےسامنےیہ بطوردلیل پیش کریں گے۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منظور ملک نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے یہاں بھی بیٹھنا ہے جہاں اس وقت ہم بیٹھے ہیں، کل یہ اعتراض آسکتا ہےآپ نےفلاں کیس پررائے دی،اس لیے مقدمہ نہ سنیں۔

مزید پڑھیں:شہریار آفریدی نے ووٹ کیوں ضائع کیا؟،تفصیلات منظر عام پرآگئیں، عمران خان سخت ناراض

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منظور ملک کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ میرے بڑے ہیں، میں فوجداری مقدمات میں آپ کو اپنا استاد مانتا ہوں، میرے دلائل عدالتی کارروائی براہ راست نشر ہونے کے فوائد سے متعلق ہیں، جو لوگ عدالت نہیں آسکتے ان کیلئے لائیو نشریات موثر ثابت ہوگی،چند وکلا کی وجہ سے لوگوں میں وکلا گردی کا لفظ مشہور ہوگیا۔جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ صرف ایک وکیل نہیں ہیں، جو بات آپ یہاں کررہے ہیں وہ ایک جج کی آبزرویشن بن جائیگی۔

Related Posts