پیسہ سب کچھ نہیں خرید سکتا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پیدائش سے لے کر موت تک لوگ اکثر پریشانیوں کے بارے میں شکایت کرتے ہیں لیکن ان کو ختم کرنے کے لئے کام کم کرتے ہیں،ہم پیسہ کمانے ، طاقت اور اختیار حاصل کرنے کی دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں،اس دوران ہم اپنے بچوں کو پیار اور شفقت کے بارے میں سکھانا بھول گئے ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں پیسہ سب کچھ خرید سکتا ہے۔

یہاں تک کہ عبادت گاہوں میں جو شخص سب سے زیادہ عطیہ کرتا ہے اسے انتہائی متقی اور پرہیزگار سمجھا جاتا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو اکثر سیاستدانوں اور امیر لوگوں کے گھر بار بار دیکھا جاتا ہے۔ ایسا ہی ڈاکٹروں کے لئے بھی ہوتا ہے جنہیں  سمجھا جاتا ہے کہ وہ انسانیت کیلئے بے لوث کام کرتے ہیں ۔

اسی طرح جب ڈاکٹر کو کسی قانونی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ایک وکیل کے پاس جاتا ہے جو اس کے قانونی معاملات حل کرنے کے لئے بھاری رقم وصول کرکے اس کا استحصال کرتا ہے۔

پیسے کی ہوس نے ایک ایسی دنیا تشکیل دیدی ہے جہاں ہم دوسروں کو اپنے مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن ان کا استحصال کرنے سے کبھی چوکتے نہیں  ہیں اور اس طرح ہمارے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں جس کابظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا ہے۔

ہمیں ان مسائل کی اصل وجہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مشکلات بچپن ہی سے شروع ہوجاتی ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام مساوات کی تعلیم کے لئے تیار نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے بجائے ہم نے ابتدائی عمر سے ہی بچوں میں اختلاف پیدا کر دیا ہے۔

ہمارے معاشرے میں بے حد پولرائزیشن ہے۔ دولت مند اپنے بچوں کو ایلیٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ میں بھیجتے ہیں جبکہ متوسط ​​طبقہ انہیں سرکاری اسکولوں میں بھیجتا ہے۔ اس سے معاشرے میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور نفرت پروان چڑھتی ہے۔

والدین اپنی پوری زندگی کماتے ہیں تاکہ ان کے بچے بہترین اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں۔ اس سے ایک برتری کا پیچیدہ ماحول پیدا ہوتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں پیسہ سب کچھ خرید سکتا ہے۔ امیر آدمی کا بچہ اپنے دوستوں پر بے پرواہی سے رقم خرچ کرتا ہے ، مہنگی نجی ٹیوشن لیتاہے اور بہترین یونیورسٹیوں میں داخلہ حاصل کرتا ہے۔

ان بچوں کو کالج میں کوئی رکاوٹ نہیں پیش نہیں آتی کیونکہ ان کے والدین کا پیسہ بہہ رہا ہوتاہے لیکن سخت محنت کرنے والے بچے کو یونیورسٹی میں داخلے کے لئے سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امیر کے بچے کواسکول کی عمر سے لے کر یونیورسٹی تک دکھایاجاتا ہے کہ پیسہ ہر چیز خرید سکتا ہے اس لئے وہ انسانیت ، مساوات یا امن نہیں سیکھے گا،اس کے بنیادی مقاصد زندگی بھر پیسے کمانا ہوں گے۔

اگر ہم اپنے نجی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں نظام کو بہتر نہیں بناتے ہیں تو ہم معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لاسکتے ہیں۔ ہم ایسے معاشرے کی تشکیل جاری رکھیں گے جہاں پیسہ رکھنے والے سوچیں کہ وہ سب کچھ خرید سکتے ہیں اور یہ طبقہ نچلے طبقے کی حالت زار سے لاتعلق رہتا ہے۔

معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے ہمیں اپنے بچوں پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں انہیں محبت ، احترام انسانیت اور ایک ایسی تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہے جو زندگی کے تمام مراحل میں مساوات ، امن اور انصاف کی بنیاد بن سکے۔

Related Posts