اقلیتیں اور اہلِ ایمان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج سال نو کا پہلا دن ہے اور رب کائنات سے یہی التجا و التماس ہے کہ یہ سال پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے انسانوں کیلئے خوشیاں لے کر آئے اور ہم اس نئے سال کا آغاز اس دعا کے ساتھ کرتے ہیں کہ خدائے ذوالجلال ہماری غلطیوں اور خطاؤں کو بخش دے اور اس نئے سال میں ہمیں ایمان کی تازگی، اپنے فضائل و برکات اور امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق دے اور ہمیںدوسروں کی مدد کرنے کی ہمت اور طاقت عطاء فرمائے۔

پاکستان میں سال 2020 اپنی تلخ و شیریں یادیں چھوڑ گیا، کورونا کی وباء کے بعد پاکستان میں اقلیتوں کو مذہبی انتہا پسندی کے عفریت نے جکڑے رکھا اورسال بھر میں لاتعداد مسیحی لڑکیوں کے اغواء ، جنسی زیادتی اور جبری مذہب تبدیلی کے واقعات تواتر کیساتھ خبروں کی زینت بنتے رہے۔

پاکستان کی ہر حکومت اقلیتوں کے حقوق کے دعوے کرتی ہے لیکن اگر اقلیتوں کی حالت اور حالات کو دیکھا جائے تو پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے حالات کسی طرح بھی بھارت اور فلسطین سے مختلف نہیں ہیں فرق صرف یہ ہے کہ وہاں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو نظر آتا ہے لیکن کوئی مسلمان اگر پاکستان میں ہندو یا مسیحی بیٹیوں کو اغواء کرے، اجتماعی زیادتیاں کی جائیں اور بعد میں جبری مذہب تبدیل کروالیں تو کوئی مسئلہ نہیں  اور اقلیتوں پر مظالم کیلئے پاکستان میں ریاست مکمل ساتھ دیتی ہے، عدالتیں 12 یا 13 سال کی بچیوں کو تمام دستاویزات مسترد کرکے بالغ قرار دیکر جنسی درندوں کے حوالے کرکے مکمل تعاون کرتی ہیں۔

پاکستان کے بہادر اہلِ ایمان اقلیتوں پر جبر کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔پاکستان کو تعلیم اور صحت کے شعبے میں اپنے پیروں پر کھڑا کرنیوالے مسیحیوں کو پہلے ایک منظم سازش کے تحت خاکروب کے شعبے تک محدودکیا گیا پھر مسیحی اداروں کو تباہ کرکے ان پر قبضہ کیا گیا اور آج مسیحیوں کو چوڑا، بھنگی اور طرح طرح کے القابات دیئے جاتے ہیں اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ریاست بھی سرکاری نوکریوں کے کوٹے میں بطور خاص اقلیتوں کیلئے خاکروب کی اسامیاں رکھتی ہے اور یہ حق قطعی کسی اور کو نہیں دیا جاتا۔

مسیحیت دنیا کا سب سے بڑامذہب ہے اور مسیحی تعلیمات میں ظلم و جبر یا بدلے کا کوئی تصور نہیں ہے، مسیحیت امن اور سلامتی کا نام ہے لیکن کرسمس کے موقع پر ہر سال کی طرح اس سال بھی ایمان کی خرابی کا معاملہ پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا جب پاکستان کے اہل ایمان کرسمس پر مسیحیوں کو میری کرسمس کہنے کے معاملے پر اپنا ایمان بچاتے دکھائی دیئے اور ہر اہل ایمان نے بساط بھر کوشش کی اور دیگر اہل ایمان کو اپنا ایمان خراب کرنے سے بچا لیا ۔

پاکستان میں رہنے والی اقلتیں اور کچھ سیکھی ہوں یا نہیں لیکن ایک بات ضرور پوری شدت سے سیکھ گئیں جو منافقت ہے اور یہاں اپنے لئے جو چیز جائز ہے دوسرے کیلئے اس کا تصور بھی محال ہے، کسی بھی مذہب پر بہتان تراشی یا خود ساختہ تشریحات اہل ایمان کا خاصہ ہیں۔

کرسمس ہویا ہولی، ایسٹر ہو یا دیوالی، دسہرا ہو یا بیساکھی ، اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کیلئے ایسی ایسی توجیحات بیان کرتے ہیں کہ اقلیتوں کے دل کٹ کر رہ جاتے ہیں لیکن ہمارے اہل ایمان چونکہ آزاد ریاست میں رہتے ہیں اس لئے ان کو اقلیتوں کیخلاف کچھ بھی بولنے کا حق حاصل ہے۔

پاکستان میں بسنے والے کسی بھی ہندو، مسیحی یا دوسرے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص سے پوچھیں تو حال معلوم ہوگا کہ اہل ایمان اس اقلیتی فرد کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں، ہندوؤں کے تو مذہب میں ذات پات کا تصور موجود ہے لیکن اہل ایمان بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔

  پاکستان میں بسنے والے ہزاروں مسیحی وہندواہل ایمان کی ایمان افروز کارروائیوں کے سبب ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں اور یہاں موجود ہر اقلیتی باشندہ پاکستان سے راہ فرار تلاش کررہا ہے ۔

اس کرسمس پر بھی اہل ایمان نے اپنی شعلہ بیانی سے مسیحیوں کیخلاف بھرپور صف بندی کرکے اپنا ایمان بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جہاں موقع ملا وہاں مسیحی بستیوں میں ہنگامہ آرائی بھی کی کیونکہ اہل ایمان کو کسی بھی منفی اقدام کی کھلی اجازت ہے کیونکہ اقلتیں ہوتی ہی اس لئے ہیں کہ ان پر زور آزمائی کرکے ایمان تازہ کیا جاسکے۔

ہمارے اہل ایمان کا ایمان مسیحیوں کو کرسمس کی مبارکباد دینے سے خراب ہوتا ہے، چرچ بنانے سے خراب ہوتا ہے، مندر یا گردوارہ بنانے سے خراب ہوتاہے یا برابری کے حقوق کا تصور کرنے سے خراب ہوتاہے لیکن منبر پر بیٹھ کر نفرت پھیلانے سے یا دودھ میں پانی، کیمیکل یا سرف ملانے، کورونا کی وباء کے دوران ماسک جیسی چیز کے دام بڑھانے، ادویات میں ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، جعلسازی، درس گاہوں میں بچوں سے جنسی زیادتی، رشوت، ناانصافی اور ایسی دیگر برائیوں سے ایمان پر رتی برابر فرق نہیں پڑتا۔

مسیحیوں کے اترے کپڑے پہننے اور مسیحی ممالک میں جانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے یا مسیحیوں کی زکوٰۃ و خیرات کھانے سے ایمان پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور مسیحی ریاستوں میں اہل ایمان کو مکمل حقوق بھی درکار ہوتے ہیں اور وہاں ایمان قطعی خراب نہیں ہوتا کیونکہ انسانوں کے جہان میں انسانیت کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسیحی ریاستوں میں اہل ایمان کو تمام حقوق حاصل ہیں جن کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تصور بھی محال ہے۔

میری دعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر اس نئے سال میں پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور پاکستان کو کورونا، مہنگائی، بدامنی، بیروزگاری اور تمام برائیوں اور مسائل سے محفوظ رکھے اور تمام اہل پاکستان کو ہر آزمائش میں سرخرو کرے۔ آمین 

نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Related Posts