میلوڈرامہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سب سے پہلے میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے گزشتہ دنوں ختم ہونیوالے ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی، مجھے امید ہے کہ اس کے باوجود معاشرے کا حصہ سمجھا جائے گا، مجھے اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ میں نے شعیب منصور کی دو ابتدائی فلموں کے علاوہ مشکل سے ایک پاکستانی فلم بھی دیکھی ہو۔مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری ایک بار پھر شائقین کی توجہ سمیٹنے میں کامیاب کی طرف گامزن ہے۔

میرا ارادہ کسی کی تضحیک یا دل آزاری کرنا نہیں ہے، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی ڈرامے شائقین میں انتہائی مقبول ہیں اور میرے پاس تم ہو کا موازنہ گیم آف تھرونز سے کیاجانا انتہائی حیرت انگیز بات ہے، جہاں گیم آف تھرونز کی ایک قسط پر تقریباً دس ملین ڈالرلاگت آتی ہے وہاں پاکستان میں بننے والے ڈرامے کی ریٹنگ دیکھتے ہوئے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے جس کیلئے پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری نے طویل محنت کی ہے۔

پاکستانی ڈرامہ کا مرکزی خیال اور کہانی ایک ہی سمت میں چل رہی ہے جس میں تفریح کے نام پر اعتدال پسندی کا پرچار کیا جاتا ہے تاہم مغرب میں نت نئے رجحانات کا دوردورہ ہے، ہمارے ملک میں روایات سے ہٹ بنائے جانیوالے ڈراموں کو مسترد کردیا جاتا ہے کیونکہ شائقین کی عدم توجہی کسی بھی ڈرامہ کی ریٹنگ گرانے کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ایک مخصوص سوچ کے تحت ہی ڈرامہ بنائے جاتے ہیں۔

میلوڈراما میں ایک کہانی کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس میں سنسنی خیزی، جذبات ، احساسات ، خاندانی معاملات، شادی اور اخلاقیات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے جبکہ شائقین کی توجہ حاصل کرنےکیلئے سازشوں اور ولن کا کردار بھی ڈرامہ میں ڈال کر ایک اس کو دلچسپ بنادیا جاتا ہے اور شائقین کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈرامہ میں مخصوص موسیقی بھی شامل کی جاتی ہے۔

ہمارے ڈراموں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ اکثر غیر سنجیدہ اور فلمی انداز سے مبرا نظر آتے ہیں۔ ایک عام فارمولہ ہے جس کی پیروی اب ہر منظر میں کی جاتی ہے۔ اس کی شروعات ایک وسیع شاٹ سے ہوتی ہے جس سے ترتیب ظاہر ہوسکتی ہے ، ہدایت کاروں کو منظر کو مسدود کرنے کا کوئی احساس نہیں ہے یا وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر کرداروں کی نقل و حرکت نہ ہو تو ایک عمدہ اسکرپٹ یا کاسٹ مکمل طور پر بیکار ہے۔

آپ مجھ سے اتفاق کرتے ہیں تو اگر ہم ایک ایک عمومی مشاہدہ کریں تو ہمارے ڈرامے ایک مخصوص موضوع کا احاطہ کرتے ہیں تو ہم کیسے کبھی شرلاک ہومز، پرسن بریک، منی ہائسٹ اور اسٹرینجرتھنگز جیسے ڈرامہ دیکھیں گے؟ ، کیا ہم اپنے معاشرے میںہونیوالے حقیقی مسائل پر ڈرامہ نگاری کو فروغ دینے کے بجائے کب تک من گھڑت کہانیوں پر مبنی ڈراموں اور حب الوطنی کے قصے سنتے رہیں گے؟، ہماری ڈرامہ انڈسٹری کب تک ایک مخصوص دائرے میں گھومتی رہے گی۔

میں نے ایک بار ایک یونیورسٹی میں ایک فلم ڈائریکٹر کو بات کرتے سنا تھا کہ لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی فلم کیوں بنائی اور اس کے پیچھے کیا مقصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا کوئی مقصد نہیں ہے بس انہوں نے بنادی ہے۔

اس وقت لوگ گھریلو مسائل ، کا م کاج اور زندگی کے دیگر مسائل میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں ، اس لیئے جب یہ لوگ سینما جائیں یا ٹی وی کے سامنے بیٹھیں تو ان کو اپنی پریشانی وقتی طور پر بھول جانی چاہئیں کیونکہ انسان اپنی توجہ بٹا نے کیلئے سینما کا رخ کرتا ہے۔

Related Posts