شکار پور کا کھویا ہواوقار

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

جب آپ اپنے آبائی شہر جاتے ہیں تو یہ آپ کو اپنی ذات کا احساس دلاتا ہے اور آپ کو سکون ملتا ہے۔میرا آبائی شہر شکار پور کبھی سندھ کے پیرس کے نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ تجارتی اعتبار سے اس شہر کی اپنی ایک اہمیت تھی اور یہ شہر کسی زمانے میں ایک مشہور تجارتی مرکز تھا۔

یہ شہر کراچی سے 500 کلومیٹر شمال میں صوبہ سندھ کے اندرونی حصے میں واقع ہے اور اس کی مجموعی آبادی 1اعشاریہ 7 ملین ہے۔ شکار پور مشرق وسطیٰ کو برآمد ہونے والی دنیا بھر میں مشہور اچار کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگ شکار پور کی مٹھائی اور لکھی گیٹ کی مشہور فالودہ قلفی کے بھی شیدائی ہیں۔

گزرے زمانے میں یہ گھروں کے دروازوں ، کھڑکیوں اور بالکونیوں پر لکڑی کے پھولوں کی نقاشی کی شکل میں شان و شوکت کے لئے مشہور تھا۔ اب اس کی عظمت کی باقیات اور جھلکیاں ضلع کی مختلف عمارتوں میں پائی جاسکتی ہیں۔

اس شہر کی معیشت صنعت و تجارت ، ماہی گیری اور زراعت پر مشتمل ہے۔ شکار پور کے سات دروازے (سندھی میں در) تھے جن میں لکھی گیٹ ، ہاتھی گیٹ ، کرن گیٹ ، ہزارہ گیٹ ، واگن گیٹ ، سووی گیٹ اور خان پورگیٹ اور صدیق مری کے نام سے جانا جاتا تھاتاہم اب یہ دروازے غائب ہوچکے ہیں لیکن ان علاقوں کو ابھی تک ان کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔جیسا کہ نام سے پتہ چلتا ہے ، شکار کے لغوی معنی شکار ہے اور شکار پور بھی شکار سے ماخوذ ہے جسے ماضی کے حکمرانوں نے بطور کھیل استعمال کیا ۔

اس شہر کی بنیاد سترویں  صدی کے اوائل میں بہادر خان داؤدپوتا نے رکھی جن کا خاندانی سلسلہ عباسیوں تک جاتا ہے۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے لکھی سے خان پور بہادر خان کو ایک وسیع جاگیر عطا ء کی۔ جاگیر کا علاقہ گھنے جنگل پر مشتمل تھا جو جنگلی جانوروں سے بھراتھا۔

یہ جنگل سندھ کے ایک طاقتور قبیلے مہارس کے قبضے میں تھا۔ داؤد پوتا کے علاقے کو انعام دینے سے دونوں فریقوں کے مابین تنازعہ پیدا ہوگیا جو خونی جنگ میں تبدیل ہوگیا۔

فتح کے بعد بہادر خان کو ایک مقامی بزرگ نے مشورہ دیا کہ وہ جنگل کی زمین کو صاف کرکے ایک شہر بنوائے۔ اسی طرح شکارپور 1617 کے قریب وجود میں آیا۔شکارپور اپنے بھرپور باغات کے سبب شہرت رکھتا تھا۔

شاہی باغ اپنی خوشبوؤں کے لئے جانا جاتا ہے، اس میں ایک چڑیا گھر تھا لیکن جانوروں کو بعد میں کراچی چڑیا گھر منتقل کردیا گیا۔

اس باغ میں لکڑی کا ایک پوکا لگا ہوا ہے جس کا ڈیزائن پریسٹن پہل نے تیار کیا اور اسے ستمبر 1871 میں سر ڈبلیو میری ویدرنے تعمیر کیا تھا۔ شکار پور کے بہت سے دوسرے باغات اور کھلی جگہیں ختم ہوگئی ہیں جبکہ یہ شاید دنیا کا واحد شہر ہے جس کے پارک کے اندر کرکٹ گراؤنڈ ہے۔

سترہویں صدی کے اہم تجارتی راستے پر اپنے اسٹریٹجک مقام کی وجہ سے شکار پور ایک نامور تجارتی مرکز میں تبدیل ہوگیا اور اس نے تجارت میں شہرت حاصل کی۔

آر برٹن نے اپنے نوٹ میں شکار پور کوتاجروں، منی چینج کرنے والوں اور بینکروں کا دارالحکومت قرار دیا۔

اسمارٹ مارکیٹنگ کے طریقوں کے ساتھ شکار پور کے تاجروں نے نمایاں شہرت حاصل کی اور ترکی سے چین تک شاید ہی کوئی قابل ذکر تجارتی شہر تھا جس کا شکار پور میں تاجروں کے ساتھ معاہدہ نہ ہو۔

شکار پور خاص طور پر برصغیر کی تقسیم کے بعد اپنی عظمت کھو بیٹھا جب بہت سے ہندو تاجر ہندوستان ہجرت کر گئے۔ یہاں دیہی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی آمد تھی جس نے قبائلی جھگڑوں کا آغاز کیا اور آج یہ شہر بدعنوانی ، ناخواندگی ، بے روزگاری کی وجہ سے اپنی وقعت کھوچکا ہے، شکار پور کی بھرپور تاریخ وہ ہے جو میں نے اپنے خاندان کے بزرگوں سے سنی ہے۔ ضروری ہے کہ اس تاریخی شہر کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔

Related Posts