لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Nawaz-Sharif

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالتے کا حکم دیتے ہوئے انہیں 4 ہفتے کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی، ساتھ یہ بھی کہا گیا اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہوسکتی ہے اور حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کرسکے گا۔ 

لاہور ہائیکورٹ میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی ، جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے موقع پر (ن) لیگ کے صدر شہباز شریف، پرویز رشید، امیر مقام، ملک احمد خان اور عطا تارڑ بھی عدالت میںپیش ہوئے جبکہ حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) چوہدری اشتیاق اے خان جبکہ قومی احتساب بیور (نیب) کی جانب سے عدالت میں فیصل بخاری اور چوہدری خلیق الرحمٰن پیش ہوئے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سماعت سے پہلے کچھ سوالات کا جواب جاننا چاہتے ہیں، کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط لگائی جاسکتی ہیں؟ اگرضمانت کے بعد ایسی شرائط لاگو ہوں توعدالتی فیصلے کو تقویت ملے گی یا نہیں؟نواز شریف کے وکیل بتائیں کہ کیا نواز شریف شورٹی کے طور پر کچھ دینا چاہتے ہیں یا نہیں، نواز شریف سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

وفاقی حکومت کےوکیل نے کہا حکومت کے علم میں ہے نواز شریف کی صحت تشویش ناک ہے، سابق وزیراعظم کا نام ای سی ایل سے تو حکومت نے نکالنے کا کہا لیکن ساتھ بانڈز بھی کہے گئے، اگر نواز شریف حکومت کو بانڈز جمع نہیں کرانا چاہتے تو عدالت میں جمع کرا دیں۔

عدالت نے شہبازشریف سے استفسارکیا کہ کیا نوازشریف واپس آئیں گے، جس پرشہبازشریف نے کہا کہ انشاءاللہ واپس لائیں، عدالت نے مزید استفسار کیا کہ آپ کا انہیں ملک واپس لانے میں کیا کردار ہوگا، جس پرانہوں نے کہا کہ میں ان کے ساتھ بیرون ملک جارہا ہوں وہ علاج کے بعد واپس آئیں گے۔

وفاقی حکومت نے سیکیورٹی بانڈ(زرضمانت) لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرانے کی پیشکش کی جس پر شہبازشریف کے وکیل نے اپنے موکل سے مشارت کرنے کے لیے وقت طلب کیاجس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 15منٹ کے لیے ملتوی کر دی۔

بعد ازاں شہباز شریف کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کا دوبارہ آغا ہوا، لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کے وکلا سے تحریری ضمانت طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ نواز شریف اور شہباز شریف واپس آنے سے متعلق لکھ کردیں۔

عدالت کی جانب سے ضمانت طلب کیے جانے پر شہبازشریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ڈاکٹرزکی سفارش پر نواز شریف کو بیرون ملک بھجوایا جانا ہے، وہ یقین دہانی کروانے کو تیار ہیں جب بھی صحت مند ہوں گے واپس آئیں گے اور عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے تحریری حلف نامہ لے لیتے ہیں وفاق اس دیکھ لے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ‘یہ تحریری حلف نامہ عدالت میں دیا جائے گا اور اگر حلف نامے پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔

اس دوران شہباز شریف نے کہا کہ للہ نواز شریف کو صحت دے اور اللہ تعالی نواز شریف کو واپس لائیں گے، عدالت نے حکم دیا کہ نواز شریف اور شہباز شریف واپس آنے سے متعلق لکھ کر دیں، جس کے بعد عدالت نے ایک مرتبہ پھر سماعت 15 منٹ کے لیے ملتوی کر دی۔

عدالتی حکم پر نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی کا ڈرافٹ لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرا دیا گیا۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریری یقین دہانی کا ڈرافٹ دو صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کہا گیا کہ نواز شریف صحت مند ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے۔

ڈرافٹ میں کہاگیا کہ نواز شریف واپس آکر اپنے عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے، نواز شریف پاکستان کے ڈاکٹروں کی سفارش پر بیرون ملک جا رہے ہیں، بیرون ملک میں موجود ڈاکٹر جیسے ہی اجازت دیں گے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر نواز شریف واپس آئیں گے۔

نواز شریف کے وکیل امجدپرویزنے ڈرافٹ عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ وکیل وفاقی حکومت نے کہا ہمیں ڈرافٹ پر اعتراض ہے، اس میں نہیں لکھا گیا کہ نواز شریف کب جائیں گے اور کب آئیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی ہے۔

حکومتی وکیل نے کہا کہ 25 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کیس کی مرکزی اپیل بھی مقرر ہے جس میں سابق وزیراعظم عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے، وفاق کے وکیل نے موقف اپنایا اگر نواز شریف نہیں آتے تو کیا ہو گا؟ اس لیے اینڈیمنٹی بانڈ مانگے گئے ہیں۔

بیان حلفی کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کا بیان حلفی مناسب لگ رہا ہے، بیان حلفی میں شہباز شریف کےسہولت کاری کےالفاظ کو یقینی بنانے میں تبدیل کریں، عدالت نے اشتر اوصاف کو شہبازشریف کے اقرارنامے میں ترمیم کی ہدایت کی۔

جسٹس علی باقر نجفی نے کہا ہر کوئی جانتا ہے نواز شریف کی صحت خراب ہے۔ وکیل نے کہا جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، نواز شریف کے معائنے کیلئے حکومت بورڈ بیرون ملک بھیج سکتی ہے، بورڈ چیک کرے گا نواز شریف سفر کر کے ملک واپس آسکتے ہیں یا نہیں۔

وکیل وفاقی حکومت کے مطابق نوازشریف کو مزید اجازت میڈیکل رپورٹس سے مشروط ہوگی۔ نواز شریف کے بیان حلفی میں شامل ہو کہ جو بھائی شہباز نے گارنٹی دی اس کو تسلیم کرتے ہیں، شہباز شریف بیان حلفی دیں کہ نواز شریف واپس نہیں آتے تو جرمانے کی رقم ادا کریں گے۔

وکیل نوازشریف نے کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف، مریم کو سزا سنائی، نوازشریف اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر واپس آئے، نوازشریف نے واپس آکر گرفتاری دی جس سے ظاہر ہوتا ہے نوازشریف عدالتوں کا کتنا احترام کرتے ہیں۔

امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سے نوازشریف کو 6 ہفتے کی ضمانت ملی، 6 ہفتے کی ضمانت میں باہر جانے پر پابندی لگائی گئی، نوازشریف کی حالت کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کوئی قدغن نہیں لگائی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ڈرافت کے جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت جب سمجھے گی کہ نواز شریف کی حالت ٹھیک ہے تو حکومت اپنا بورڈ ملک سے باہر چیک اپ کے لیے بھیج سکتی ہے ۔

حکومتی وکیل نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہا کہ اگر حکومت کو اینڈیمنٹی بانڈ جمع نہیں کرائے جاتے تو عدالت میں کرا دیں، جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت حکومتی شرائط سے متعلق فیصلہ کرے گی۔

بعدازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت اپنا ڈرافٹ تیار کر کے فریقین وکلا کو دے گی اور اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا، بعدازاں تقریباً 5 بجے عدالت کی جانب سے مجوزہ ڈرافٹ وفاقی حکومت اور شہباز شریف کے وکلاء کو فراہم کیے گئے۔

عدالتی ڈرافٹ کے متن میں کہا گیا کہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے 4 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے لیکن اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے جب کہ حکومتی نمائندہ سفارت خانے کے ذریعے نوازشریف سے رابطہ کرسکے گا۔

بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے وکلا نے عدالتی ڈارفٹ منظور کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالتی ڈرافٹ منظورہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ عدالتی ڈرافٹ پرمکمل عملدرآمد کریں گے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالتی ڈرافٹ پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی ڈرافٹ میں معمولی ترامیم کے لیے تجاویز ججزکو چیمبرمیں بھجوادی ہیں۔

Related Posts