غیرقانونی کام کیلئے قانونی راستہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ایک مشہور مقولہ ہے کہ آزادی کی قدر وہی قومیں جانتی ہیں جن کو آزادی کی نعمت میسر نہیں ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی قوم آزادی کی سب سے زیادہ قدر و قیمت جانتی اور اس سے بھرپور استفادہ کرتی ہے تو بیجا نہ ہوگا۔

پاکستان میں بسنے والے آزاد شہری خود کو بالکل ہی آزاد سمجھتے ہیں، کوئی قانون، اخلاق یا ذمہ داری پاکستانی عوام سے آزادی کی نعمت چھین نہیں سکتی بلکہ پاکستان کے ہر طرح سے آزاد شہریوں کی آزادی کو مزید مستحکم بنانے کیلئے ہر جگہ قانون موجود ہے۔

آپ کو کسی بھی زمین پر قبضہ کرنا ہے تو اس کیلئے قانون کے محافظ آپ کو بھرپور تحفظ فراہم کرینگے کیونکہ بطور آزاد شہری کسی بھی جگہ پر خیمہ زن ہونا آپ کا بنیادی حق ہے، آپ کو سڑک پر ٹھیلا کھڑا کرنا ہے یا پتھارا لگانا ہے تو بھی قانون آپ کی ہر طرح مدد کیلئے تیار ہے، آپ کو منشیات فروخت کرنی ہے یا قحبہ خانہ چلانا ہے تو بھی قانون آپ کی مدد سے کبھی نہیں چوکے گا۔غیر قانونی اسلحہ چاہیے یا کسی کو قتل کرکے آزاد رہنا چاہتے ہیں تو بھی قانون کی خدمات آپ کیلئے حاضر ہیں۔

پاکستان ایک آزاد مملکت تو 73 سال پہلے بن چکا ہے لیکن آج بھی پاکستانی ذمہ دار شہری نہیں  بن سکے اور اس میں عوام کے ساتھ ساتھ قانون پر عملدرآمدکروانے پر مامور ادارے زیادہ قصور وار ہیں، پاکستان میں آپ کو ٹریفک سگنل پر ہر شخص عجلت میں دکھائی دیتا ہے اور چند سیکنڈز کیلئے اشارے پر کھڑے رہنا لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی قانون کے محافظ نے فرض شناسی دکھائی تو 20 روپے سے لیکر 50 روپے میں جان بخشی ہوجائیگی۔

پاکستان میں کوئی بھی کام قانون کے دائرے سے باہر نہیں ہوتا، قانون کے لمبے ہاتھ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں، پاکستان میں سگنل توڑنے، منشیات فروشی، گٹکا، ماوا، جسم فروشی، اسمگلنگ ، قتل و غارت، چوری ڈکیتی غرض  ہر غیر قانونی کام قانون کی چھتر چھایا میں ہوتا ہے اور کیونکر نہ ہو؟، پاکستان میں قانون پیسے والوں کی لونڈی ہے۔

جس کے پاس پیسے ہیں  وہ اپنی اس لونڈی کو جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے پھر آپ دن دہاڑے کسی پولیس اہلکار کو گاڑی کی ٹکر مار کر اڑادیں یا زمین پر قبضہ کریں کوئی مائی کا لعل آپ کی آزادی پر انگلی نہیں اٹھاسکتا۔پاکستان میں دور دور تک دیکھا جائے تو تاحد نگاہ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو اپنی ذمہ داری مکمل ایمانداری سے ادا کرتا ہو۔

یہاں  راتوں رات غیر قانونی تعمیرات ہوجاتی ہیں لیکن قانون نام کی لونڈی سوئی پڑی رہتی ہے لیکن غریب آدمی اپنی نالی پکی کرنے کیلئے دو بوری سیمنٹ لے آئے تو یہی قانون ناصرف پوری طرح حرکت میں آجاتا ہے بلکہ صاحب تعمیرات کو دو بوری سیمنٹ لانے پر بھی ہرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں ، گاؤں دیہات دیکھ لیں کہیں بھی پولیس آپکو اپنا کام کرتی دکھائی نہیں  دیگی بلکہ ملک میں ایک تاثر عام ہے کہ پاکستانی پولیس کو دیکھ کر تحفظ سے زیادہ لٹنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

کسی بھی غریب پر کلو کے حساب سے منشیات ڈال کر بے بنیاد کیسز بنانا اور پیسے لیکر قتل کرنا بھی قانون کے رکھوالوں کے شاندار کارناموں کا تاریخی کا حصہ ہے۔آپ کوئی بھی غیر قانونی کام کرنا چاہتے ہیں، پولیس کو حصہ دیں اور پھر دیکھیں آپ کا کاروبار کیسے چمکتا ہے۔

آپ کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنوانا ہو یا گھر بنانا ہو ہر ادارہ کے کرتا دھرتاؤں  کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ عارض کو اتنا پریشان کردیا جائے کہ عاجز خود اپنے قانونی کام کیلئے غیر قانونی راہ اختیار کرے اور ایسا ہونا بھی چاہیے وگرنہ افسران بالا کے بچے مہنگے اسکولوں میں کیسے جائینگے، بیگمات کی شاپنگ، پارٹیوں کے خرچے کیسے پورے ہونگے، ایک آزاد ملک کے آزاد افسران کو اتنی سی آزادی تو ملنی ہی چاہیے۔

پولیس کا کام آپ کی حفاظت کرنا ہے لیکن سانحہ ساہیوال ہو یا نقیب اللہ محسودکا قتل پاکستان کی تاریخ پولیس کے ان شرمناک کارناموں  سے بھری پڑی ہے، کوئی شریف النفس انسان کتنے ہی نقصان پرتھانے جانے کے بجائے آنسو بہا کر خاموش رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ آپ جائینگے مال مسروقہ کی رپورٹ درج کروانے لیکن پولیس کے قابل جوان آ پکےپاس موجود چونیاں (سکے) تک نہیں چھوڑیں گے کیونکہ آپ کا اپنا ہی مقدمہ آپ کے خلاف بھی چل سکتا ہے اور یہ کمال صرف ملک خداداد پاکستان میں ہی ممکن ہے۔

لاہور موٹر وے پر خاتون سے زیادتی پر ایک سینئر پولیس افسر کی حیثیت سے سی سی پی او لاہور نے اپنے ادارہ کی غفلت اور لاپرواہی پر شرمندہ ہونے کے بجائے کہا کہ خاتون نے سفر کیلئے غلط وقت اور راستے کا انتخاب کیا ،اس طرح کے بے سروپا بیان کے بعد سی سی پی او لاہور اپنے عہدے پر رہنے کا اخلاقی جواز کھونے کے باوجود اب بھی اپنے عہدے پر موجود ہیں یہ بھی صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے۔

پاکستان میں پولیس مکمل طور پر سیاسی ہے، ہر آنیوالی حکومت اپنی مرضی کے آئی جی لگاتی ہے اور پارٹی کارکنوں اور حتیٰ  کہ جرائم پیشہ عناصر کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے پولیس فورس میں بھرتی کرکے غیر قانونی کاموں کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے، فل فرائی ہاف فرائی کی شرمناک مافیانہ اصطلاحات بھی ہماری پولیس کی ہی ایجاد ات ہیں۔

پولیس کے سپاہی سے لیکر تھانیدار تک ہر پوسٹ فروخت ہوتی ہے، ہر آنیوالا آئی جی اور سی سی پی او نذرانہ وصول کرتا ہے کیونکہ ہر آنیوالا اپنی جمع پونجی لٹا کرآتا ہے تو اپنی انویسٹمنٹ کا دوگنا حاصل کرنا اپنا حق سمجھتا ہے، اسی طرح ماں کے زیور اور گھر کا سامان بیچ کر پولیس میں بھرتی ہونیوالا سپاہی بھی لوٹ مار کو اپنا بنیاد حق اور فرض سمجھتا ہے ۔لاکھوں  روپے بھر کر سوٹ کیس صاحب کو پہنچانے والا تھانیدار کروڑوں کمانے کیلئے ہر فکر سے آزاد ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں قانون تو موجود ہے لیکن اس کا صرف غلط استعمال ہوتا ہے ، قانون کے رکھوالے خود لوگوں کو قانون توڑنے کی ترغیب دیتے ہیں، اگر پاکستان میں صرف پولیس کا ادارہ ہی سیاست اور جرائم سے پاک ہوجائے تو معاشرے میں بڑی حد تک سدھار آسکتا ہے لیکن یہ دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔

Related Posts