سندھ میں امن وامان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بااثر جاگیرداروں اور مقامی سیاستدانوں کی طرف سے مجرموں کی سرپرستی کے باعث سندھ کے مختلف علاقوں میں امن وامان کی صورتحال تیزی سے خراب ہورہی ہے ،سندھ کے کئی علاقوں میں آج بھی ڈاکوؤں کا راج ہے اور اغواء اور قتل و غارت سمیت ہر طرح کے جرائم عام ہیں اور شدت پسندی بڑھتی جارہی ہے۔

سندھ پولیس نے ضلع شکارپور میں مغویوں کو آزاد کروانے کے لئے ڈاکوؤں کیخلاف ایک آپریشن شروع کیا تاہم یہاں ایک افسوسناک صورتحال دیکھنے میں آئی جب ڈاکوؤں کے مقابلے میں پولیس کے پاس ناکافی اور روایتی اسلحہ تھا جبکہ مدمقابل ڈاکو جدید ترین اسلحہ اور مشینری کے علاوہ ضروری سازوسامان سے بھی لیس تھے۔

حکومت سندھ خطے میں مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ،حالیہ کارروائی میں ڈاکوؤں کی فائرنگ کے دوران گولیوں نے بکتر بند گاڑی میں چھید کرکے دو پولیس اہلکار وں کی زندگی چھین لی ،جرائم پیشہ عناصرکے پاس اینٹی ائرکرافٹ گنوں سمیت جدید مشینری موجود ہے جبکہ پولیس کو روایتی ہتھیاروں پر انحصار کرنا پڑرہا ہے اور اب تک پولیس نے آٹھ ڈاکوؤں کو ہلاک کیا ہے تاہم

بالائی سندھ کے متعدد اضلاع خصوصاً شکار پور ، کشمور ، کندھ کوٹ اور لاڑکانہ میں عام طور پر قبائلی سرداروں اور مقامی سیاستدانوں کی حمایت کی وجہ سے امن وامان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، کچھ ہفتوں پہلے کشمور میں چاچڑ اور سبزوئی قبائل کے مابین ایک جھڑپ میں 9افراد مارے گئے تھے۔ اس طرح کے واقعات معمول بن چکے ہیں اورقبائلی دشمنی کی وجہ سے متعدد جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔سن 2019 میں ایس ایس پی شکارپور کی شائع کردہ ایک رپورٹ میں سندھ کے وزیر امتیاز شیخ پر مجرموں کو پناہ دینے اور معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانے کے لئے مجرمانہ ونگ استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

پولیس نے ان الزامات کی تحقیقات کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی لیکن کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور پولیس افسران کا تبادلہ کردیا گیا۔

کارروائی نہ ہونے سے مجرموں اور ان کے کفیلوں کو حوصلہ ملا اور اب بھی یہ یقینی ہے کہ پولیس امن و امان کی صورتحال کو بحال کرنے کے لئے جرائم پیشہ افراد کے خلاف زبردست آپریشن کرنے میں ناکام رہے گی کیونکہ سندھ میں ڈاکوؤں اور بااثر سرپرستوں کیخلاف رینجرز یا فوج کے زیر انتظام کراچی طرز کا آپریشن ہونا چاہیے۔

اس بات کی بھی چھان بین ہونی چاہئے کہ جرائم پیشہ افراد کے پاس ایسے جدید ہتھیارکس طرح پہنچے اوریہ بھی ضروری ہے کہ ان کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی کی جائے بصورت دیگر سندھ میں امن و امان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

Related Posts