کے پی او حملہ، تحقیقات اور خامیاں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی میں جمعہ کو ہونے والے کے پی او کی عمارت میں تباہ کن حملے کے بعد سندھ پولیس نے واقعے کی انکوائری اور کیس کی تفتیش کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی قائم کردی ہے۔ یہ سیکورٹی کی سنگین کوتاہی تھی، خاص طور پر پشاور میں حملے کے بعد۔ اور وزیر داخلہ کا یہ بیان حیران کن ہے کہ عسکریت پسندوں نے اپنا نیٹ ورک شہری مراکز میں پھیلا دیا ہے، اس بیان سے بہت زیادہ اعتماد پیدا نہیں ہوتا، اور یہ بیان صرف یہ واضح کرتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف اس جنگ میں ریاست کس طرح ناکام ہے۔ پشاور کی طرح، دہشت گردوں نے انتہائی محفوظ زون میں داخل ہونے کے لیے پولیس کی وردیوں کا استعمال کیا۔

کراچی پولیس آفس (کے پی او) پر خطرناک حملہ اچانک کیا گیا اور اس حملے نے یہ بتادیا کہ شہری مراکز کتنے غیر محفوظ ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی کی قیادت سینئر سیکورٹی حکام کریں گے اور یہ ضروری بھی ہے کہ اس تحقیقات سے خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں، کیونکہ ریاست خود کو عسکریت پسندوں کے اگلے اقدام کو روکنے کے لیے وقت کے خلاف دوڑ میں شامل ہے۔

سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مارے گئے تین میں سے دو حملہ آوروں کی شناخت ہو گئی ہے جب کہ تیسرے کا ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا ہے، رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے تیسرے دہشت گرد کا نادرا کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں تھا اور نہ ہی وہ غیر ملکی تھا۔

اس حملے کی وجہ اور چند ہفتے قبل پشاور میں ہونے والی صورتحال راتوں رات پیدا نہیں ہوئی۔ لہٰذا، ناقص فیصلہ سازی کا احتساب ہونا چاہیے جس نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دینے کے نتائج بھگت رہے ہیں۔

سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی خامیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے اسٹاک ٹیکنگ کی شدید ضرورت ہے جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سویلین اور عسکری قیادت کو ایک حقیقت پسندانہ انسداد دہشت گردی پالیسی کے ساتھ سامنے آنے کی ضرورت ہے۔

یہ حقیقت کہ دہشت گردی پر کثیر الجماعتی کانفرنس کو دو بار ملتوی کیا گیا ہے، اس بات کو واضح کرتا ہے کہ حکمران اس طرح کے سنجیدہ مسائل کو اہمیت نہیں دیتے، اگر ہمیں اس خطرے سے نمٹنا ہے تو مضبوط قیادت کی ضرورت ہوگی، جو اس وقت نظر نہیں آرہی۔

Related Posts