جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا عادل خان کا قتل اور قانون و انصاف کے تقاضے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مولانا عادل خان کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے 50 لاکھ روپے انعام کا اعلان
مولانا عادل خان کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے 50 لاکھ روپے انعام کا اعلان

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

شہرِ قائد میں 10 اور 11 اکتوبر کی درمیانی شب جامعہ فاروقیہ کے مہتمم اور ممتاز عالمِ دین مولانا عادل خان کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا جبکہ واقعے کا مقدمہ تاحال درج نہیں کیا جاسکا۔

دہشت گردی کے اِس واقعے میں مقصود نامی مولانا عادل خان کا ڈرائیور بھی شہید ہوا۔ مولانا عادل خان اور ڈرائیور کی نمازِ جنازہ اگلے روز ہوئی جس میں بڑی تعداد میں اہم شخصیات، علمائے کرام اور طلباء شریک ہوئے۔

سوال یہ ہے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان کا امن برباد کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور کراچی جیسے خوبصورت شہر کو پر امن نہیں دیکھنا چاہتیں۔  آئیے ایسے ہی کچھ سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔ 

قانون کی حکمرانی اور امن کے وقفے 

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی وطنِ عزیز کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہاں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے محبِ وطن شہری رہتے ہیں اور ملکی معیشت اور تعمیرو ترقی کیلئے سب سے زیادہ حصہ کراچی ہی دیتا ہے۔

بدقسمتی سے کراچی میں امن کے وقفے تو بے شمار آئے، لیکن ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز اور قتل و غارت کے باعث پائیدار امن کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ علمائے دین، سیاسی شخصیات اور فنکار بھی کراچی میں ہی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔

ہوتا کچھ یوں ہے کہ دہشت گردی پر قابو پالیا جاتا ہے، شہر میں امن بحال بھی ہوجاتا ہے لیکن کچھ ہی روز بعد یا کچھ ماہ بعد ایک ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے کہ ہر آنکھ اشکبار ہوجاتی ہے اور ہر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔

مولانا عادل خان کون تھے؟

تازہ ترین دہشت گردی یا ٹارگٹ کلنگ کے دوران کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں  مولانا عادل خان کو شہید کیا گیا، شہادت کے وقت ان کی عمر 63 برس تھی۔

مولانا عادل خان نے عالمِ اسلام کے معروف شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کے گھر میں آنکھ کھولی اور جامعہ فاروقیہ سے سندِ فراغت حاصل کرکے عالمِ دین قرار پائے۔

دینی علم کے ساتھ ساتھ مولانا عادل خان کو دنیاوی علوم پر بھی دسترس رہی، آپ نے جامعہ کراچی سے 1976ء میں ہیومن سائنس میں گریجویشن کی، دو سال بعد عربی میں ماسٹرز کیا اور ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی سند 1992ء میں حاصل کی۔

الفاروق نامی رسالے میں مولانا عادل خان نے سن 1980ء سے ایڈیٹر کے طور پر فرائض سرانجام دینا شروع کیے جبکہ جامعہ فاروقیہ کراچی میں 1986ء میں سیکریٹری جنرل بن گئے۔

عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی اور جامعیہ فاروقیہ 

ایک عالمِ دین کے طور پر مولانا عادل خان نے پاکستان کی نمائندگی اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک کی۔ آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیاء میں معارف الوحی اور علم انسان فیکلٹی سے بھی وابستہ رہے۔

آپ کے والد کا انتقال سن 2017ء میں ہوا جس کے بعد مولانا عادل خان ملائشیاء سے کراچی لوٹ آئے اور جامعہ فاروقیہ میں بطور مہتمم خدمات سرانجام دینے لگے اور یہ ذمہ داری آخری سانس تک نبھاتے رہے۔ 

قاتلانہ حملہ اور شہادت 

آج سے 2 روز قبل مولانا عادل خان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ شاہ فیصل پولیس کے بیان کے مطابق آپ کی گاڑی شاہ فیصل کالونی میں شمع شاپنگ پلازہ کے قریب رُکی ہوئی تھی جس کے دوران موٹر سائیکل سوار ملزمان نے قاتلانہ حملہ کیا۔

حملے کے نتیجے میں مولانا عادل خان ڈرائیور سمیت جاں بحق ہوئے، آپ کی تدفین اتوار کی صبح نمازِ جنازہ کے بعد جامعہ فاروقیہ میں ہی والد کے پہلو میں کی گئی۔

نمازِ جنازہ اتوار کو فیز 2 حب ریور رود پر ادا کی گئی جس میں علمائے کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی جن میں مفتی تقی عثمانی، حافظ نعیم الرحمان، مولانا عبدالغفور اور اورنگزیب فاروقی کے ساتھ ساتھ دیگر علمائے کرام شامل ہیں۔

تفتیش، رپورٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج 

سی ٹی ڈی کے ایس پی راجہ عمر خطاب کے مطابق ایک موٹر سائیکل پر 3 حملہ آور آئے، موٹر سائیکل چلانے والے نے 2 ملزمان کو مولانا کی گاڑی کے عقب میں اتارا۔

اتارے گئے ملزمان نے 9 ایم ایم پستول سے فائرنگ کرکے مولانا عادل خان اور ڈائیور کو نشانہ بنایا اور فرار ہو گئے جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظرِ عام پر آئی۔

قبل ازیں وزیرِ اعلیٰ سندھ اور گورنر سندھ کو ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق جب یہ واقعہ پیش آیا اُس وقت مولانا عادل کا ایک ساتھی کچھ خریدنے کیلئے گاڑی سے اتر گیا تھا۔ گولیوں کے 5 خول برآمد ہوئے۔

واقعے کے بعد صدرِ مملکت، وزیرِ اعظم عمران خان، گورنر سندھ اور وفاقی و صوبائی حکومت کے نمائندوں اور علمائے دین سمیت ہر شخص نے تعزیت، ہمدردی اور گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ 

فرقہ وارانہ فسادات کی سازش اور علماء کا مؤقف 

عالمِ دین مولانا عادل خان کا تعلق دیو بند مسلک سے ہے جبکہ ایس پی سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب نے مولانا کے قتل کو فرقہ واریت پھیلانے کی سازش قرار دیا۔

شیعہ سنی فرقہ وارانہ کشیدگی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کیونکہ گزشتہ دنوں ہی کراچی میں سنی اور دیو بند مسلک نے ایک ہی چھتری تلے مبینہ طور پر صحابہ سے گستاخی کے معاملے پر بڑی بڑی ریلیاں نکالیں۔

اس کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ مولانا عادل خان کو کسی مخالف فرقے کی طرف سے نشانہ بنایا گیا ہو، معروف عالمِ دین کے قتل پر تفتیش تاحال جاری ہے جس کے بعد مزید انکشافات متوقع ہیں۔

اگر ہم شیعہ علمائے دین کا مؤقف اپنے سامنے رکھیں تو مجلسِ وحدت المسلمین کے صوبائی جنرل سیکریٹری علامہ باقر عباس زیدی نے کھل کر مولانا عادل کے قتل کی مذمت کی۔

علامہ باقر عباس زیدی نے کہا کہ مولانا عادل خان پر حملہ کراچی کا امن تباہ کرنے کی سازش ہے۔ گزشتہ روز علامہ اورنگزیب فاروقی نے کہا کہ تمام ادارے 24 گھنٹوں میں مولانا کے قاتلوں کو گرفتار کریں۔ آج علماء کمیٹی نے حکومت کو قاتلوں کی گرفتاری کیلئے 48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دے دیا۔ 

مسلکی سازش یا بھارتی ایجنڈا؟

دہشت گردی کے ہر حملے کو بھارت سے جوڑنا بھی درست نہیں کیونکہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمن اور بھی ہیں تاہم وزیرِ اعظم عمران خان کے مطابق بھارت گزشتہ 3 ماہ سے شیعہ سنی علماء کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے پاکستان میں فرقہ وارانہ تصادم کیلئے کوشش کر رہا ہے۔

غور کیجئے تو وزیرِ اعظم کی یہ بات حقیقت سے قریب محسوس ہوتی ہے کیونکہ کراچی میں 1 سال کے دوران مولانا عادل خان پر حملہ، ایک دوسرا بڑا واقعہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ قبل ازیں مارچ میں مفتی تقی عثمانی پر بھی حملہ ہوا جس میں وہ خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ مولانا عادل خان کے قتل کے بعد علمائے کرام کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو جتنی جلدی ممکن ہو، گرفتار کیا جائے۔

Related Posts