الزامات لگا کر جج کو بینچ چھوڑنے کا نہیں کہا جا سکتا، چیف جسٹس

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آڈیوز پر بغیر تصدیق پریس کانفرنس کرنیوالے وزیر کو ہٹا دینا چاہیے تھا:چیف جسٹس
آڈیوز پر بغیر تصدیق پریس کانفرنس کرنیوالے وزیر کو ہٹا دینا چاہیے تھا:چیف جسٹس

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ بغیر تصدیق آڈیوز پر پریس کانفرنس کرنیوالے وزیر کو ہٹا دینا چاہیے تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے آڈیو لیکس کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے آڈیولیکس کمیشن کو کام کرنے سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی جبکہ کمیشن کیخلاف بنچ تبدیلی کی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

آج سماعت کا آغاز ہوا تو درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست مقرر نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کی درخواست بھی دیکھ لیں گے، توہین عدالت کی درخواست پر لگے اعتراضات ختم کیے جائیں، توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے تو عدالت کے استفسار پر بتایا کہ کسی کیس میں ججز کے ذاتی مفاد کے ٹکراؤ سے متعلق بات کروں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست اعتراضات ختم ہونے کے بعد دیکھ لیں گے، جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ آپ کی درخواست میں ایک کمی ہے، چیف جسٹس پاکستان آئینی آفس ہے جس کے اپنے اختیارات ہیں، اگر چیف جسٹس موجود نہ ہو تو پھر قائم مقام چیف جسٹس کام کرتا ہے۔

اٹارنی جنرل صاحب، چیف جسٹس پر الزامات لگا کر بنچ سے الگ ہونے کا نہیں کہا جا سکتا، چیف جسٹس یا جج پر الزامات لگا کر اختیارات کم نہیں کیے جاسکتے، چیف جسٹس صرف غیرموجودگی میں اپنا قائم مقام مقرر کرتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بنچ کی تشکیل پر حکومت نے اعتراض اٹھایا ہے، انکوائری کمیشن کی تشکیل کے خلاف کیس سننے والے بنچ پر اعتراض ہے، ہماری درخواست کے پہلے حصے میں بنچ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم کی زیرِ صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اہم اجلاس آج ہوگا

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے، انکوائری کمیشن بنانے سے قبل ہم سے پوچھا تک نہیں گیا، محض الزامات کی بنیاد پر ججز پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا،کیسے مفروضے پر بات کرسکتے ہیں کہ کیس میں چیف جسٹس سمیت 2 ججز کا مفاد وابستہ ہے؟

Related Posts