اسرائیل کی جارحانہ بمباری، یہ کشت و خون کب تک؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسرائیل کی جارحانہ بمباری جاری ہے۔ مقبوضہ فلسطین عربوں کی سرزمین ہےجس کا اعتراف خود یہودیت کے پیروکار بھی کرتے ہیں تاہم صیہونیوں نے 40ء کی دہائی میں عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نہ صرف فلسطین پر قبضہ کیا بلکہ دنیا بھر سے یہودیوں کو لا لا کر مقبوضہ فلسطین میں بسا دیا گیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے ہزاروں فلسطینی شہید ہوگئے اور دوسری جانب ان سے محض 40 کلومیٹر کی دوری پر موجود اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں صیہونیوں کو دنیا بھر کی عیش و عشرت اور بدمستیوں میں غرقاب دیکھاجاسکتا ہے۔
جب دوسری جنگ عظیم کے بعد ترکی جو کسی دور میں اسلامی سلطنت کی مرکزی خلافت ہوا کرتی تھی، اس عظیم حق سے محروم ہوا تو اس وقت یہودیوں کی موجودہ مقبوضہ فلسطین میں آبادی محض 3 فیصد تھی جو آج فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ بڑھا کر  55 فیصد پر جا پہنچی ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل کی قراردادیں واضح طور پر اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں تاہم یہودی بستیاں بسانے کا یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے جس میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے ۔سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 242 یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسرائیل کا مقبوضہ فلسطین سے قبضہ ختم کیا جائے تاہم بجائے قبضہ چھوڑنے کے، اسرائیل کی ڈھٹائی، جارحیت اور ظلم و ستم میں کوئی کمی نہیں آئی۔

حماس مزاحمت  اور اسرائیل فلسطین جنگ

گریٹر اسرائیل کی بنیاد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں صیہونیت کے پیروکاروں کی ایک کانفرنس کے بعد رکھی گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا بار بار مختلف حیلے بہانوں سے قتل عام کیا گیا۔ چاہے فلسطینی صحافیوں، دانش وروں اور فنکاروں کے گھر ہوں یا کاروباری افراد کی عمارات، اسرائیل نے 7 اکتوبر کے بعد ہونے والے حملوں میں ہر قسم کی عمارتوں، خاص طور پر ہسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی عمارات کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں غزہ کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ بدھ کے روز تک مجموعی شہادتیں 6500سے زائد ہوگئیں جن میں 2700بچے شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

اسرائیل فلسطین لڑائی، جیو پولیٹکس اور پاکستان
آج سے 3 روز قبل عالمی بینک کے سربراہ نے ایک کانفرنس کے دوران کہا کہ فلسطین میں جس طرح کے حملے ہورہے ہیں، یہ عالمی دہشت گردی کو جنم دیں گے جس سے دنیا کا اقتصادی نظام تباہ ہوسکتا ہے۔ اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو خطے میں یہ انتقام اور دہشت گردی کی آگ پھیلتی چلی جائے گی تاہم امریکا جنگ بندی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ امریکی بحری بیڑے سمندر میں موجود ہیں جو ایران اور حزب اللہ کے ممکنہ ردِ عمل کو روکنے کیلئے کسی بھی وقت متحرک کیے جاسکتے ہیں جبکہ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ حزب اللہ 2006 کے مقابلے میں آج 10 گنا زیادہ طاقتور ہے۔
حزب اللہ اور ایران کی طاقت اپنی جگہ، تاہم اسلامی برادری کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کی امداد کیلئے زیادہ سرگرمی دیکھنے میں نہیں آتی بلکہ یہ معاملہ زیادہ تر زبانی کلامی بیان بازی تک محدود کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب امریکا نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی اور یہ بیان دیا ہے کہ اسرائیل کی حماس کے خلاف جنگ کے دوران غزہ پر حملوں میں کوئی وقفہ نہیں ہونا چاہئے یعنی جو لوگ بمباری اور عمارتیں سر پر آگرنے سے شہید نہیں ہوئے، وہ بھوک پیاس سے جاں بحق ہوجائیں۔
سلامتی کونسل نے  2002ء میں اپنی قرارداد نمبر 1397 میں قرار دیا کہ اسرائیل فلسطین تنازعے کا 2 ریاستی حل ہونا ضروری ہے جسے عالمی قانون کی حیثیت حاصل ہے تاہم سلامتی کونسل میں طاقتور ممالک اسرائیل کا اس قدر ساتھ دے رہے ہیں کہ عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے والے ملک یعنی اسرائیل کے سامنے اقوامِ متحدہ کے سربراہ کو بھی لچک دکھانی پڑ رہی ہے۔ ایک روز انتونیو گوتریس اسرائیل کی جارحیت کے خلاف بیان دیتے ہیں تو دوسرے روز کہتے ہیں کہ میں حماس کے اسرائیل پر حملوں کی مذمت کرتا ہوں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے فلسطین کے حق میں محض لفظی اور زبانی کلامی بیان پر ہی استعفے کا مطالبہ کر لیا جاتاہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ امریکا، برطانیہ اور اتحادی ممالک سلامتی کونسل میں کسی صورت اسرائیل کا ساتھ چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن کی اسرائیل نواز پالیسی کے خلاف خود امریکا اور برطانیہ سے بھی دردِ دل رکھنے والی آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ امریکا کو کس جانب لے جایا جارہا ہے، خطے کی تمام تر بد امنی، تباہی اور بربادی کی ذمہ داری امریکا کے کاندھوں پر بھی اتنی ہی عائد ہوتی ہے جتنا کہ اسرائیل اس تمام تر خونریزی اور قتل و غارت کا ذمہ دار ہے۔
اگر او آئی سی کے 57ممالک ہی مظلوم فلسطینیوں کو بچانا چاہتے تو اپنا ہی   ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرکے ایک قرارداد اسرائیل کے خلاف منظور کرتے جو کہ خود او آئی سی چارٹر کے عین مطابق ہوتی اور دنیا بھر میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا جاتا جبکہ او آئی سی نے سربراہانِ مملکت کا اجلاس بلانے کی بجائے وزرائے خارجہ کے نچلے درجے کا اجلاس طلب کیا جس کی کوئی خاص وقعت نہیں اور اس کا سبب صرف اتنا ہی محسوس ہوتا ہے کہ ان ممالک کے سربراہان کے مفادات مغربی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔
تمام مسلم ممالک اگر چاہیں تو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد منظور کروائی جاسکتی ہے اور سلامتی کونسل اجلاس بھی فلسطین کے حق میں بلایا جاسکتا ہے چاہے اسے امریکا یا برطانیہ جیسے ممالک ویٹو کردیں تاہم اس سے عالمی ضمیر جاگے گا کیونکہ مغرب کو یہ احساس ہوگا کہ مسلمان ممالک فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنا چاہتے ہیں، وہ نہتے فلسطینیوں کا بہتا ہوا خون نہیں دیکھ سکتے، اس لیے ہمیں اسرائیل کا غیر منصفانہ و ظالمانہ ساتھ چھوڑنا ہوگا، تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ایسا نہیں کیاجاسکا، اور مستقبل قریب میں بھی اس کے آثار مخدوش نظر آتے ہیں، نتیجتاً مستقبل میں کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلم ممالک بار بار ایک دوسرے کے بعد اسرائیل یا اس جیسے ہی دیگر ممالک کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہیں۔ 

Related Posts