سائنس کے علم اور محققین کی نظر میں وقت ایک دلچسپ موضوع ہے کیونکہ زمین پر وقت کی جو قدروقیمت ہے، ہماری ہی کہکشاں کے دیگر نظاموں بلکہ خود ہمارے نظامِ شمسی میں ہی یہ تصور مختلف طریقوں سے تبدیل ہوتا ہے۔
آج سے 1 سال قبل سائنسدانوں کے ایک گروہ نے کیا وقت دھوکا ہے کے موضوع پر ایک سیر حاصل بحث کی جس میں وقت کے روایتی تصورات کو چیلنج کیا گیا جبکہ فزکس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سائنسدان وقت کو مطلق اور آفاقی سمجھتے تھے۔
تاہم جدید سائنس میں البرٹ آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافت نے بتایا کہ وقت کا تعلق خلاء سے ہے جو دیگر عوامل سے متاثر ہوسکتا ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے شان کیرول کا کہنا ہے کہ ابتدائی کائنات میں کم اینٹروپی وقت کے مضبوط تجربے کی ضامن ہے۔
اس حوالے سے شان کیرول نے کہا کہ کائنات کی کم انٹروپی مختلف کائناتوں کے ساتھ ملٹی یونیورس کے وجود کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ملٹی یونیورس کو سائنس میں تاحال کسی تصور سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، تاہم اس پر طویل عرصے سے جاری بحث دلچسپ ہے۔
کینیڈا مین یونیورسٹی آف ویسٹرن اونٹاریو کی ایملی ایڈلم نے کہا کہ کائنات میں کم انٹراپی کا راز طبیعیات میں وقت کے متعلق مفروضوں سے پیدا ہوتا ہے۔ وقت بہتا نہیں اور اس کے متعلق ہمارا خطی ترقی سے متعلق خیال بذاتِ خود کسی وہم سے کم نہیں۔
وقت کے متعلق ایک اور سائنسدان ایڈلم نے کہا کہ فطرت کے نظریات اور مساوات سے وقت کو الگ کرنا چاہئے تاکہ اس کی نوعیت بہتر طور پر سمجھی جاسکے۔ کوانٹم کششِ ثقل تھیوری کے تعاقب میں وقت اکثر مساوات سے غائب ہوتا ہے۔
تمام تر بحث کا حاصل یہ کہ طبیعیات دان اس بات پر متفق ہوئے کہ وقت کوئی دھوکہ نہیں بلکہ زندہ حقیقت ہے تاہم اس کی نوعیت اور کوانٹم مکینکس اور عمومی اضافت کے ساتھ اس کے تعلق کو دریافت کرنے کیلئے مزید تجربات کی ضرورت ہے تاکہ اس کی حقیقت سمجھی جاسکے۔