کیا اب اسرائیل ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو ٹائمز آف اسرائیل

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

گذشتہ ہفتے کے روز اسرائیل پر ڈرون اور میزائلوں سے ایرانی حملوں کے بعد تہران اور تل ابیب کے درمیان بڑھتی کشیدگی میں پوری دنیا ممکنہ اسرائیلی ردعمل کا انتظار کر رہی ہے۔

موقر العربیہ کے مطابق اسرائیل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کا ردعمل واضح اور فیصلہ کن ہوگا۔ اس حوالے سے تجزیہ کار مختلف آراء پیش کررہے ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل وسیع تر جنگ سے گریز کرتے ہوئے تہران کو جواب دے گا۔ کچھ اسرائیل کے جوابی حملے کی تاریخی اور ممکنہ مقامات پر بھی بات کرتے ہیں۔

امریکن نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کی چیف ریسرچر امریکی تجزیہ کار کیرولین روز کے مطابق ایرانی حملوں پر اسرائیلی ردعمل تاخیر کا شکار ہونے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ کے دائرہ کار میں توسیع نہ کرنے کے مقصد سے امریکی دباؤ کے نتیجے میں ایران کے حملوں پر اسرائیلی ردعمل میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور وجہ ہے جو اس جواب میں تاخیر کا سبب بن سکتی ہے۔ تل ابیب شاید رفح میں فیلڈ کی پیشرفت پر توجہ مرکوز کرنے کے ارادے سے آنے والے ہفتوں کے لیے اپنے ردعمل میں تاخیر کر سکتا ہے۔

جہاں تک اسرائیل کے ممکنہ اہداف کی بات ہے تو ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل بیرون ملک ایرانی مشنوں، یا شام، لبنان اور دیگر ممالک میں کام کرنے والے ایرانی مشیروں پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہے جہاں تہران کے لیے پراکسی ملیشیا سرگرم ہیں۔

ایرانی امور کے ماہر محقق وجدان عبدالرحمن نے بتایا کہ اسرائیلی ردعمل کئی وجوہات کی بناء پر ناگزیر ہے۔ اسرائیلی وار روم نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے علاوہ نیتن یاہو ایران کے اندر کارروائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسرائیل اس سے قبل تہران کی ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے چکا ہے۔

وجدان نے مزید کہا کہ ایرانی انقلاب کے بعد تہران نے پہلی بار اسرائیلی سرزمین کو براہ راست نشانہ بنایا، حالانکہ تل ابیب نے ایران کے اندر نشانہ نہیں بنایا تھا۔ اس لیے اسرائیل کے براہ راست ایران کے اندر اسی طرح کے حملے کرنے کا امکان بہت حقیقی اور ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ متوقع اسرائیلی حملہ عنقریب، اچانک، ڈرونز اور لڑاکا طیاروں کے استعمال سے ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو نے اپنے بیانات کے ذریعے ایران کے خلاف متوقع حملوں سے پہلے ہی اس کی ترویج شروع کردی ہے۔ فی الحال ایک نفسیاتی جنگ جاری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حملے نفسیاتی جنگ کے بعد ہوں گے اور اس لیے ردعمل دنوں اور ہفتوں میں سامنے آ سکتا ہے۔

متعدد مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل محدود بنیادوں پر ایران کے اندر فوجی مقامات کو نشانہ بنائے گا۔ سائبر حملے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عراق، شام اور لبنان سمیت متعدد عرب ممالک میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کو نشانہ بنانے کے ذریعے بھی تل ابیب جواب دے سکتا ہے۔

Related Posts