کیا بجٹ مسائل کا حل ہے ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ہمارے عوام و خواص بڑی حد تک سالانہ پیش کئے جانیوالے بجٹ کو معاشی مسائل حل کرنے کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہیں، اسی لئے وطن عزیز میں سالانہ بجٹ نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور ہر شخص کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔

بجٹ سے پہلے اور بعدمیں ہونیوالے مباحثے اور مبادلوں میں یہ بات شد ومد سے زیر بحث لائی جاتی ہے کہ پیش کیا گیا بجٹ عوامی مسائل کس حد تک حل کرسکے گا اور ملک کی شرح نمواور عوام کے معیار زندگی کو کس حد تک بہتر کرسکے گا۔

معاشیات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اس بحث کو دیکھ کر کبھی محظوظ ہوتے ہیں تو کبھی سرپیٹ لیتے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ بجٹ عوام دوست ہوگا یا نہیں اس کا دارومدار ٹیکسوں کی وصولیابی پر منحصر ہوتا ہے لیکن شومئی قسمت کہ پاکستان میں ٹیکس دینے کی شرح خطے میں سب سے کم ہے۔

ٹیکس دینے کی شرح کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب سے جانچا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10فیصد یا اس سے بھی کم ہے جبکہ خطے میں اوسط ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 14 سے 15 فیصد تک ہے تو کم ٹیکس دینے کی شرح کی وجہ سے حکومتی آمدن محدود ہوجاتی ہے اور جب حکومت کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں تو خرچ بھی نہیں ہوتا۔

بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہمارے کاروباری شعبے جو زیادہ ٹیکس دینے کی استعداد رکھتے ہیں وہ بھی ٹیکس دینے سے گریز کرتے ہیں ، مثلاً ریٹیل سیکٹر پاکستان کا ایک بہت بڑا شعبہ ہے لیکن یہاں چند کروڑروپے سے زیادہ ٹیکس نہیں دیا جاتا، یہ یادرکھیں کہ جب تک ہم اپنے ٹیکس کی شرح نہیں بڑھاتے اس وقت تک پاکستان کی ترقی اور متوازن بجٹ دینا کسی بھی حکومت کیلئے ناممکن ہوگا۔

اس ضمن میں حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ٹیکس دہندگان اور نادہندگان کے درمیان واضح فرق رکھے اور جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں ان کو مراعات دی جائیں اور ہوائی اڈوں اور سرکاری دفاتر میں ٹیکس دہندگان کی خصوصی عزت افزائی کی جائے تاکہ نادہندگان کو ٹیکس دینے پر مائل کیا جاسکے۔

پاکستان میں ٹیکس نہ دینے کی ایک بڑی وجہ ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کا رویہ بھی ہے، پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ ٹیکس دینے والے ٹیکس دیکر پھنس جاتے ہیں اور جو نہیں دیتے وہ ایف بی آریا دیگر اداروں کو رشوت دیکر ٹیکس نیٹ سے نکلوالیتے ہیں اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایف بی آر ودیگر اداروں کا رویہ ٹیکس دینے والوں کے ساتھ نہایت نامناسب اور بعض اوقات ہتک آمیز بھی ہوتا ہے اور ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھ کر ایف بی آر میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

جب تک ٹیکس کلیکشن کے ڈھانچے کو بہتر نہیں بنایا جائیگا ، پاکستان میں ٹیکس کی شرح بہتر نہیں ہوسکتی۔ ملک بھر میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 3 ہزار ارب روپے کی سالانہ ٹیکس چوری ہوتی ہے اور اگر یہ رقم حکومتی خزانے میں آجائے تو بجٹ کا خسارہ پورا ہوسکتا ہے ۔

ٹیکس نظام میں اصلاحات کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت بن چکا ہے، ٹیکس نظام کو ٹیکنالوجی کی مدد سے جدید خطوط پر استوار کرکے رشوت خوری کا بڑی حد تک سدباب کیا جاسکتا ہے جس کی واضح مثالیں نادرا اور پاسپورٹ دفاتر ہیں جنہیں ماضی میں رشوت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے یہاں کرپشن پر بڑی حد تک قابو پایا جاچکا ہے۔

اس کے علاوہ ٹیکس جمع کروانے کیلئے اسکولوں اور کالجز میں طلبہ کو تعلیم دی جاسکتی ہے کہ کیسے وہ خود اپنے ذاتی اور کاروباری ٹیکس جمع کرواسکتے ہیں اور یہ تعلیم نہ صرف تعلیمی اداروں کے توسط سے بلکہ میڈیا کے ذریعے بھی عام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہم جدید خطوط پر ٹیکس دینے کے نظام کو استوار نہیں کرینگے تب تک ہم اپنے ٹیکس کی شرح کو بہتر نہیں بناسکتے۔ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ آپ کا دیا ہوا ٹیکس ہی مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے۔

Related Posts