سندھ میں بین المذاہب ہم آہنگی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر پیدا ہونیوالاتنازعہ ہمارے ملک میں اقلیتوں سے روا سلوک کی عکاسی کرتا ہے، لاتعداد لوگ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر ناراض دکھائی دیتے ہیں۔

مندر کی تعمیر کیلئے فنڈز کے اجراء کا مسئلہ بھی زیر بحث ہے، ہر سو یہ معاملہ ہے کہ کیا کسی اسلامی ریاست کی حکومت ایک مندر بنانے کے لئے فنڈز دے سکتی ہے۔

اسلام آباد میں مندر نہ بنتا تو یہ معاملہ شائد اتنا زور نہ پکڑتا،؟ کیا ہم سندھ میں اسی طرح کے ایک مندر کی تعمیر کو برداشت کریں گے؟ کیا بابری مسجد کے انہدام کی مذمت کرنا اور دوسری طرف ترکی میں ایا صوفیہ کی تبدیلی کا جشن منانا منافقت نہیں ہے؟ آج بھی سعودی عرب میں کوئی چرچ نہیں ہے لیکن ہم فرانس اور جرمنی میں مزید مساجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

صدیوں سے سندھ امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کی سرزمین بنی ہوئی ہے، یہ بھٹائی ، سچل سرمست اور لال شہباز قلندر کی سرزمین رہی ہے جس نے پیار اور شفقت کو فروغ دیا۔

یہ بھگت کنور رام کی سرزمین بھی رہی ہے جو سکھر میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران قتل ہونے تک دیانتداری اور مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے جانا جاتا تھا۔ سندھی ہندو دریائے سندھ کو جھولیال کا مسکن سمجھتے ہیں جو ان کے سب سے معزز دیوتا اودورال ہیں جن کوایک درگاہ میں پوجا جاتا ہے۔

تقسیم ہند کے وقت بڑی تعداد میں انخلاء کے بعد سندھ میں ایک چوتھائی ہندو یہاں رہ گئے اور غیر مقامی لوگوں کی آباد کاری کے بعد سندھ میں مذہبی رواداری کو نقصان پہنچا اور دہشت گردوں کے سندھ کا رخ کرنے کے بعد صورتحال انتہائی خوفناک ہوئی۔

آج ملک کے 94فیصد سے زیادہ ہندو سندھ کی سرزمین تھرپارکر سمیت سندھ میں آبادہیں۔میرے آبائی شہر شکارپور میں اب بھی 48ہزارے زیادہ ہندو ہیںاورمیں نے اکثر سوچتا ہوں کہ انتہائی خوفناک واقعات کے باوجود ہندو یہاں کیوں رہتے ہیں۔

مجھے احساس ہوا کہ یہ سیکھنے کا نقطہ ہے کیونکہ اس نے رواداری اور احترام کوپیدا کیا۔ ہندو دوست ، ہمسایہ ، تاجر اور اساتذہ کی حیثیت سے ہمارے درمیان رہتے ہیں۔ ہندو اب بھی ہمارے گھروں کا رخ کرتے ہیں اور زندگی بھر دوستی کے دوران مذہب کبھی بھی ہمارے درمیان دوری پیدا نہیں کی۔

ہندوؤں نے تقسیم ہند سے قبل ناصرف سندھ بلکہ پنجاب اور دیگر جگہوں  پر بہت سے ادارے بنائے جو اب بھی قائم ہیں، سول اسپتال رائے بہادر تاراچند نامی ایک متمول ہندو تاجر نے تعمیر کیا تھا جو ہندوستان ہجرت کر گیا تھا لیکن وہ میراث چھوڑ کر چلا گیا۔

لوگ اب بھی سول اسپتال جاتے ہیں اور یہاں تک کہ بہت سے مسلمان اس اسپتال کے لئے چندہ دیتے ہیں۔ اس شہر کا کالج بھی ہندو خاندان نے تعمیر کیا تھا جہاں اب بھی بہت سے لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہم صرف ہندوؤں کی شراکت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ہمارے معاشرے کا ایک حصہ بنے ہوئے ہیں۔

میرے والد نے مجھے اپنے ریاضی کے اساتذہ کے بارے میں بتایا جو ایک ہندو تھے اور 60 سال سے درس دیتے تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو 60ء کی دہائی کے وسط میں ہزاروں مسلم طلباء ان کی آخری رسومات میں شریک ہوئے،انہوں نے اسے ہندو کی حیثیت سے نہیں بلکہ اپنے استاد کی حیثیت سے یاد کیا۔ میں نے ایک بار ایک ہندو مندر کا دورہ کیاتھا جس نے مجھ میں انسانیت اور دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا رخ کرنے کی جستجو پیدا کی۔

سندھ میں سیکولر امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کی یہ اقدار آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ خودکش حملہ آور 2013 میں لکھی غلام شاہ کے معروف مزار پر حملہ کرے گا ، جہاں ایک ہی شکار اس کا نگراں تھا۔

قلندر کے مزار پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ہے اور میاں مٹھو جیسے بدنام زمانہ لوگوں نے زبردستی مذہب تبدیل کرکے سندھ کی بے عزتی کی ہے۔

افسردہ حالت نے بہت سے ہندوؤں کو اسلام آباد شفٹ کرنے پر مجبور کردیا لیکن مندر کی تعمیر کے مطالبے تک کسی نے اس بات کا احساس نہیں کیا، اب ہم یا تو ایک ایسی ریاست بن سکتے ہیں جو اقلیت کو ان کے آئینی حقوق دینے سے انکار کرتی ہے یا ایک ترقی پسند ، جدید جمہوریہ بن سکتے ہیں جو سب کو مساوی حقوق اور آزادی مہیا کرتی ہے۔

Related Posts