بھارت چین تنازعہ بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لداخ میں متنازعہ سرحدی خطے میں اس وقت بھارت چین کے ساتھ شدید کشیدگی میں الجھا ہوا ہے۔اگرچہ بھارت کا ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ تنازع رہا ہے لیکن اب مودی حکومت نے دوسرے پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو خراب کرنا شروع کردیاہے۔

گزشتہ دنوں ایک غیر معمولی واقعے میں تصادم کے دوران 20 ہندوستانی فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔ یہ دونوں ممالک کے مابین 1962 کی چین بھارت جنگ کے بعد اب تک کا سب سے بڑی کشیدگی کی لہرہے۔ اب بھارت نے ایک بار پھر متنازعہ سرحدی علاقوں میں لڑائی کا آغاز کردیا ہے جس سے مودی سرکار کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس واقعے پر ہندوستان اور چین نے پچھلے کچھ ہفتوں سے جاری کشیدگی کم کرنے کا اعادہ کیا جبکہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے صورتحال کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا ہے ۔ ہندوستانی میڈیا سے چینی مصنوعات کے بائیکاٹ اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

یہاں تک کہ بھارت نے فوجی طاقت کے حامل چھوٹے سے ملک نیپال کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ کر رکھے ہیں۔ نیپال کی پارلیمنٹ نے ایک نیا نقشہ منظور کیا ہے جس میں ہندوستان کے زیر کنٹرول علاقوں کو شامل کیا گیا ہے۔

جب سے ہندوستان نے متنازعہ خطے میں چین کی طرف جانے والی سڑک بنائی ہے تب سے دونوں ممالک کا بھی سرحدی تنازعہ جاری ہے۔ ہندوستان نے دوسرے ممالک کو مشتعل کرنے کے لئے کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔

جنگ بندی کی متعدد خلاف ورزیوں اور دہشت گردی کے الزامات سمیت پاکستان کو بدترین بھارتی اشتعال انگیزی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چین کے ساتھ بھی صورتحال مختلف ہوسکتی ہے جس نے اپنی علاقائی خودمختاری کے تحفظ کا عزم کیا ہے۔ اس تنازعہ کا بڑھنا دونوں ممالک اور خطے کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے اور اس کا واحد حل کشیدگی کم کرنے میں ہے۔

حالیہ تنازعہ کوبھارت کے یکطرفہ فیصلے سے منسوب کیا گیا ہے جس میں  کشمیر کی خود مختار حیثیت کو کالعدم اور لداخ کے آبادیاتی تغیر کو تبدیل کرنیکا فیصلہ شامل ہے۔ ہندوستان نے اس خطے میں کئی بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بنائے ہیں جس سے چین نالاں ہے جو ملحقہ تبت کے علاقے کو ترقی دینا چاہتا ہے۔

یہ خطہ جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہےاس لئے تنازعہ کو حل کرنا ہوگا ،مودی سرکار کو حالات کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہئے اور اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ بند کرنا چاہئے۔ دونوں ہمسایہ ممالک کو سرحدی تنازعات اور دیگر امور کو پرامن انداز میں حل کرنا چاہئے تاکہ ایک بڑے بحران سے بچا جاسکے۔

Related Posts