مضبوط معیشت کادعویٰ اور آئی ایم ایف معاہدہ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بالآخر بلین ڈالر کے پروگرام کو بحال کرنے کے لئے ایک معاہدہ کیا ہے جس کو گذشتہ سال اپریل میں کورونا وائرس وبائی امراض اور پالیسی میں اختلافات کے سبب معطل کردیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ سے ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت پاکستان کے لئے 500 ملین کے قرضوں کی راہ ہموار ہوگی۔

 بڑے پیمانے پر ہونے والے معاہدے سے ایک چیز تو واضح ہے کہ اس معاہدے کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑے گا، ملک میں پہلے ہی بیروزگاری بڑھ رہی ہے، جس کی روک تھام کے لئے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کیا گیا حالیہ اضافہ بھی اسی مقصد کے لئے ہوا ہے۔

ملک میں جاری کورونا کی وباء کے باوجود معاشی اعشاریئے مثبت نظر آنے پر حکومت کو حوصلہ ملا ہے، ترسیلات زر 2بلین ڈالر سے بھی زیادہ رہیں۔چونکہ حکومت کئی مہینوں سے لوگوں کو بتارہی ہے کہ اب معیشت صحیح سمت پر چل پڑی ہے، اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آرہی ہے، پھر اس پروگرام میں دوبارہ شامل ہونے کی کیا ضرورت پیش آئی؟۔

آئی ایم ایف ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ ممالک جاتے ہیں جنہیں شدید مالی بحران کا سامنا ہوتا ہے، لہٰذا فنڈ پروگرام میں دوبارہ داخل ہونے کا عمل اور وہ بھی ایسے وقت میں جب حکومت کے وزرا ء اپنی پریس کانفرنسز میں یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے کہ معیشت میں بہتری آرہی ہے، سمجھ سے بالا تر ہے؟۔

اگرچہ یہ قرض معیشت کی رفتار کو تیز تر کردے گا، لیکن اس سے عام شہریوں پر بوجھ بڑھ جائے گا جو پہلے ہی مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں، حکومت کے لئے یہ زیادہ تشویش ناک ہے کہ بلند اور متضاد بیانات دیئے جارہے ہیں، یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ عامی آدمی اس سے کس طرح استفادہ حاصل کرے گا۔ کیا ہم واقعی صحیح سمت پر جارہے ہیں؟

آئی ایم ایف میں جانا (بڑے قرضوں کا حصول) چھوٹے قرضوں کی واپسی کے لئے تو اہمیت کا حامل ہے،مگر بڑے قرضوں کا پڑنے والا بوجھ ہمیں کئی سالوں تک برداشت کرنا پڑے گا، اپنے مالی مقاصد کے حصول کے لئے متواز ن اور مساوی انداز میں ٹیکسز کی حکمت عملی کو اپنانے کی ضرورت ہوگی۔

استحکام کی کوششوں، اور عوامی اخراجات کے معیار اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے موثر عوامی مالیاتی نظم و نسق کی حمایت کرنے کے لئے بھی صوبوں کی طرف سے ایک مضبوط عزم کی ضرورت ہوگی۔

عدم توازن کو درست کرنے، ذخائر کی تعمیر نو اور افراط زر کو کم رکھنے کے لئے لچکدار مارکیٹ سے طے شدہ شرح تبادلہ اور کافی حد تک سخت مالیاتی پالیسی کلیدی ثابت ہوگی۔ اس سلسلے میں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی خود مختاری کو مضبوط بنانے اور بجٹ خسارے مرکزی بینک کی مالی اعانت کے خاتمے کے اقدامات اسٹیٹ بینک کو اس قرض کی ادائیگی اور مالی استحکام کے قابل بنائیں گے۔

اگر ہم واقعی میں اپنے ملک کو معاشی طور پر ترقی یافتہ بنانے چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی حکومت کے اخراجات کو کم کرنے، سود کی شرح کو کم رکھنے اور آہستہ آہستہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کرکے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

Related Posts